پیٹریاس کی دھمکی اور پاکستان کی امداد پر کنٹرول سخت کرنے کیلئے ریپبلیکنز کا بل .... اب امریکی مفادات کی جنگ میں شامل رہنے کا کیا جواز ہے؟

Jul 22, 2011

سفیر یاؤ جنگ
امریکی ری پبلیکنز نے اسرائیل کے متعدد ہمسایہ ممالک کی امداد میں کٹوتی اور پاکستان کی امداد پر کنٹرول سخت کرنے کا بل ایوان نمائندگان میں پیش کردیا ہے۔ اس بل کے تحت ری پبلیکنز مصر‘ لبنان‘ فلطسینی اتھارٹی اور یمن کی امداد میں کٹوتی کے خواہش مند ہیں جن کے بقول ان اقدامات کا مقصد ان ممالک میں جمہوری حکومتوں کو فروغ دینا ہے جبکہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں مبینہ موجودگی کی بنیاد پر 2مئی کو ایبٹ آباد میں کئے گئے امریکی اپریشن کو جواز بنا کر پاکستان کی امداد پر کنٹرول سخت کرنے کا تقاضہ کیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری سے سول امداد بھی پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کیخلاف کارروائی سے مشروط ہو جائیگی۔ ری پبلیکنز سے تعلق رکھنے والی ہاﺅس کمیٹی کی چیئرپرسن الینا روس لیٹینن نے اس سلسلہ میں واضح کیا کہ اب پہلے والی بات نہیں ہو گی اور اگر پاکستان ہمارے مقاصد کے حصول کیلئے تعاون نہیں کرتا تو اس کا سخت احتساب کیا جائیگا۔
ایبٹ آباد کے یکطرفہ اپریشن کے بعد امریکہ نے مبینہ دہشت گردی کیخلاف اپنے مفادات کی جنگ میں پاکستان کے کردار پر عدم اعتماد اور شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ایک جانب تو ڈرون حملوں کو وسعت دیکر ان میں اضافہ کر دیا ہے اور گزشتہ روز بھی شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں ڈرون حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں چار افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں اور دوسری جانب پاکستان پر دباﺅ بڑھانے کیلئے ڈومور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ کیری لوگر بل کے تحت دی جانیوالی اسکی سول اور فوجی امداد میں کٹوتی کرنے‘ اسے بعض تقاضوں کے ساتھ مشروط کرنے اور مختلف پابندیاں عائد کرنے کی تجاویز کا سلسلہ بھی تسلسل سے جاری ہے۔ گزشتہ ماہ بھی ری پبلیکنز اور ڈیموکریٹس کی جانب سے امریکی کانگریس میں مشترکہ طور پر ایک بل پیش کیا گیا جس میں پاکستان کی امداد میں کٹوتی کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بل بھی منظوری کے مراحل میں ہے‘ جبکہ اس سے پہلے ہی پاکستان کی امداد میں افواج پاکستان کےلئے مختص رقم میں سے 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی روک لی گئی جو مجموعی امداد کا ایک تہائی ہے۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر امریکی میڈیا کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ پاکستان کی امداد جاری رکھنے کیلئے امریکی وزیر خارجہ کو امریکی ایوان نمائندگان میں اسکے اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہو گا جبکہ اب ری پبلیکنز نے پاکستان کی فوجی امداد کے علاوہ سول امداد پر بھی کنٹرول سخت کرنے کا کلہاڑا چلا دیا ہے اور ساتھ ہی تحکمانہ لہجے میں یہ بھی باور کرادیا گیا ہے کہ اب پہلے والی بات نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کا سخت احتساب کیا جائیگا۔ گویا پاکستان پر دباﺅ ڈالے رکھنے کے اب تک جو ہتھکنڈے اختیار کئے گئے ہیں‘ وہ کافی نہیں ہیں۔ اسکے بعد تو پاکستان کی سالمیت پر براہ راست حملے کی کسر ہی باقی رہ گئی ہے جس کی امریکہ پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔ امریکی صدر اوبامہ خود بھی اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سمیت دوسرے امریکی حکام بھی پاکستان کو تسلسل کے ساتھ باور کرا رہے ہیں کہ اپنے متعین کردہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کے تعاقب میں امریکہ ایبٹ آباد اپریشن جیسی یا اس سے بھی بڑی کارروائی پاکستان میں کہیں بھی اور کسی بھی وقت کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان پر دباﺅ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کےخلاف خود سخت اپریشن کرے جبکہ ایبٹ آباد اپریشن کے بعد امریکی سینٹ کمیٹی کے چیئرمین جان کیری نے اپنے دورہ اسلام آباد کے موقع پر مبینہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کےخلاف پاکستان امریکہ مشترکہ اپریشن کی بات بھی تسلیم کرالی اور اس سے اگلے ہی روز کرم ایجنسی میں طالبان کے حقانی گروپ کےخلاف امریکی گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پھر یکطرفہ اپریشن کیا گیا۔ اب ہلیری کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان میں دہشت گردوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں کیخلاف امریکہ بھارت مشترکہ اپریشن کا عندیہ بھی دےدیا گیا ہے اور گزشتہ روز امریکی نیٹو افواج کے سبکدوش ہونیوالے سربراہ اور سی آئی اے کے نئے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بھی حکم صادر کردیا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان القاعدہ اور طالبان کیخلاف شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں بھی کارروائی کرے۔ اس کیلئے انہوں نے جواز یہ پیش کیا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کے بعد وہاں القاعدہ اور طالبان کے ارکان اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر سکتے ہیں جو اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔
اس پراپیگنڈے کے تحت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو پاکستان میں ہی پناہ حاصل ہے جن کی موجودگی میں امریکہ محفوظ ہو سکتا ہے‘ نہ علاقائی امن قائم ہو سکتا ہے۔ امریکی حکام اس زہریلے پراپیگنڈے کو جاری رکھتے ہوئے امریکی مفادات کی جنگ میں دی گئی پاکستان کی جانی اور مالی قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی فوجی امداد میں نمایاں کٹوتی کرنا اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کی بے انتہاءقربانیوں کو تسلیم کرتا ہے‘ نہ افواج پاکستان کے کردار کو کوئی اہمیت دیتا ہے اور صرف اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنے متعین کردہ ایجنڈے پر کاربند ہے۔ یہ ایجنڈہ درحقیقت مسلم امہ کیخلاف کروسیڈ شروع کرنیوالی ہنود و یہود و نصاریٰ پر مبنی طاغوتی طاقتوں کا پوری مسلم امہ کو تہس نہس کرنے کا ایجنڈہ ہے جس کی ہمارے خطہ میں امریکہ‘ بھارت اسرائیل پر مبنی شیطانی اتحاد ثلاثہ کے ذریعے تکمیل کرائی جا رہی ہے اور اس ایجنڈے میں پاکستان ان کا اصل ہدف ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سابقہ جرنیلی اور موجودہ منتخب سول حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے اور ”ڈومور“ کا ہر تقاضہ پورا کرکے طاغوتی طاقتوں کے اس ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کی ہے۔ چنانچہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوںکی ان کمزوریوں کی بنیاد پر ہی نیٹو افواج کو اس دھرتی پر اپنے پاﺅں جمانے اور ہماری آزادی و خودمختاری کو اعلانیہ چیلنج کرنے کا موقع ملا ہے جبکہ امریکہ کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ وہ ہمیں مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا‘ ہم سے ڈومور کے تقاضے بھی پورے کراتا ہے اور اس میں مین میخ بھی نکالتا ہے۔ نہ وہ ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کی خفگی کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی ہماری منتخب پارلیمنٹ کے کسی متفقہ فیصلے کی پرواہ کرتا ہے۔ اگر ہم ایک آزاد اور خودمختار ایٹمی ملک ہو کر بھی امریکی بھارتی جارحانہ عزائم کے سامنے بے بس کھڑے ہیں اور ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت اور ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود اس اقدام سے گریز کر رہے ہیں تو پھر کل کو ہمارے ان ننگے دشمنوں کو ہماری آزادی سلب کرنے اور ہمیں ہڑپ کرنے میں بھی کیا مشکل پیش آئیگی؟
اس تناظر میں ملکی اور قومی مفاد کا یہی تقاضہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد اور کورکمانڈرز کانفرنس کے فیصلوں کی روشنی میں ہر امریکی جارحیت اور اسکے جارحانہ عزائم کا منہ توڑ جواب دیا جائے‘ خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے نکال کر قبائلی علاقوں میں جاری اپریشن فی الفور بند کر دیا جائے۔ ایئربیسز سمیت اپنی سرزمین کے کسی چھوٹے سے حصے کو بھی امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘ امریکی سی آئی اے کا نیٹ ورک لپیٹ دیا جائے‘ حملے کی نیت سے آنیوالے اس کے ہر ڈرون کو ایران کی طرح مار گرایا جائے‘ امریکی سفارت کاروں اور ٹیکنکل ماہرین سمیت کسی بھی امریکی باشندے کو ملک کے کسی بھی حصے میں بغیر این او سی کے مٹرگشت کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور ویزہ پالیسی میں امریکیوں کیلئے کڑی شرائط عائد کرکے انکی آزادانہ آمد و رفت کا سلسلہ فی الفور روک دیا جائے۔ امریکہ ہمارا سٹرٹیجک اتحادی ہے‘ نہ ہمیں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنا چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے دشمن ملک کے کسی بھی سہارے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کےساتھ تعلقات قطعی منقطع ہونے چاہئیں
پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر تجارت کےلئے محدود بنکاری، اور ہفتے میں دو دن کے بجائے چار دن تجارتی لین دین پر اتفاق کیا گیا۔ تجارت کے فروغ کے معاملات اسلام آباد میں پاکستان بھارت وزارت خارجہ کے افسران کے مابین ہونے والی میٹنگ میں طے کئے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ سپاہِ رو سیاہ کشمیریوں پر ظلم و ستم میں مصروف ہے۔ عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مقبوضہ وادی میں ہوتی ہیں جہاں بھارتی افواج ایک لاکھ سے زائد حریت پسند کشمیریوں کا خون بہا چکی ہیں۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی مجروح کیا جا رہا ہے۔ تقسیم ہند کے ہر قانون اور ضابطے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے جارحانہ اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان نے یہ قبضہ چھڑانا چاہا تو بھارت بھاگا بھاگا یو این چلا گیا جس نے اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے استصواب کو مسئلہ کا حل تجویز کیا جسے بھارت نے بھی تسلیم کیا اور ساتھ ہی مکر بھی گیا، اسکے بعد بڑی ڈھٹائی سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے، ایک طرف اٹوٹ انگ کی رٹ تو دوسری طرف مذاکرات کا مذاق بھی جاری ہے۔ ہمسایوں کےساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں لیکن جو ہمسایہ آپ کی نسلوں کا دشمن ہے اسکے گلے میں بانہیں ڈال کر کیسے ملا جا سکتا ہے۔ ایک طرف پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کےساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہ کرنے کا موقف ہے تو دوسری طرف اسکے ساتھ تجارت ہو رہی ہے اور اب اس تجارت کو مزید فروغ بھی دیا جا رہا ہے۔ تجارت کنٹرول لائن کے آر پار ہو، واہگہ بارڈر پر یا کھوکھراپار کے راستے مسئلہ کشمیر کے حل تک کسی طور نہیں ہونی چاہیے، وزیر اعظم گیلانی نے انتخابی مہم کے دوران آزاد کشمیر کی سرزمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کا اصولی موقف دہرایا تھا لیکن بھارت کےساتھ نہ صرف تجارت جاری ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ حکمران اپنا اعتبار اور اعتماد نہ گنوائیں۔ اصولی موقف کا زبانی اقرار ہی نہ کریں، اسے عملی جامع بھی پہنائیں۔ لہٰذا بھارت کےساتھ مسئلہ کشمیر کے حل تک کسی قسم کی تجارت نہ کریں جو ہو رہی ہے، اسے فوری بند کر دیا جائے۔
ڈاکٹر فائی کی بلاجواز گرفتاری
ڈاکٹر غلام نبی فائی کے بنک اکاﺅنٹس منجمد کر دیئے گئے‘ امریکہ نے ان پر متعدد الزامات عائد کرکے فرد جرم لگا دی۔ علی گیلانی نے کہا ڈاکٹر فائی کشمیریوں کی بے باک آواز ہیں۔ ڈاکٹر فائی بلاشبہ پورے کشمیر کی آواز ہیں اور خاص کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے انکی بیرون ملک خدمات قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ایک مجبور و مقہور کشمیری قوم کی آزادی کیلئے قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کی‘ اسے پاکستان اور سارا کشمیر بلکہ تمام محکوم لوگ کبھی بھلا نہ سکیں گے۔ امریکہ چونکہ نہیں چاہتا کہ برطانیہ نے جو کانٹا بویا‘ اسے اکھاڑا جائے‘ اس لئے وہ ہر اس لیڈر کے راستے میں کانٹے بچھاتا ہے اور ایسا کچھ کرتا ہے کہ وہ زندگی بھر کشمیر کو آزاد کرانے کے کام نہ آسکے۔ یہی رویہ اس نے ڈاکٹر فائی کےساتھ اختیار کر رکھا ہے اور اس سارے سفاکانہ کھیل میں بھارت برابر شامل ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان بھارت تنازعہ ختم ہو اور یوں بھارت کو مضبوط تر اور پاکستان کو کمزور تر کیا جائے۔ وہ خاصی حد تک اپنے اس مذموم پروگرام میں کامیاب بھی ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی امریکہ میں کشمیر سنٹر چلا رہے تھے اور امریکن قوم و حکومت کو یہ باور کرا رہے تھے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اپنے استبداد کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ جب ہلیری کلنٹن بھارت کے دورے پر تھیں‘ عین اس وقت ڈاکٹر فائی کو گرفتار کرکے بھارت کو امریکہ کی جانب سے خیرسگالی کا پیغام دیا گیا۔ امریکہ جس شیطانی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے‘ اس میں صہیونی ہاتھ بھی ملوث ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت پاکستان پر غالب رہے۔
اسلامک بلاک وقت کی ضرورت ہے
صدر آصف علی زرداری اور سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور اقتصادی تعاون پر زیادہ توجہ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ دوطرفہ تعلقات اور دہشت گردی کےخلاف تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا انتہائی سچا دوست ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان آج پھر غیروں کی جنگ کے باعث عدم استحکام کا شکار ہے اس تناظر میں صدر زرداری کا ایران اور سعودی کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، امریکہ دس سال افغانستان میں خون کی ندیاں بہانے کے بعد لنگوٹ کس کر بھاگنے کی تیاری میں ہے ان حالات میں اسلامی ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے اسلامک بلاک تشکیل دینا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اُمت مسلمہ اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے، ہر طرف اسلامی ملکوںکےخلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے کہیں نام نہاد ریفرنڈم کروا کر انہیں تقسیم کیا جا رہا جبکہ او آئی سی سمیت کوئی بھی اسلامی ملک اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اس ظلم کےخلاف آواز بلند کر سکے۔ دہشت گردی کےخلاف اسلامی ملکوں کو اگر متحد ہونا ہے تو سب سے پہلے فلسطین کو صہیونیوں اور کشمیر کو ہندوں کی دہشت گردی سے نجات دلائی جائے، جب تک اسلامی ممالک مل کر قوت مجتمع کی شکل میں کفریہ طاقتوں کے سامنے صف آرا نہیں ہوتے تب تک مظلومیت کی زندگی گزارتے رہیں گے۔ اس وقت عالمی سطح پر بین المذاہب مکالمے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ اسلام کا درست ویژن دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے، اس سلسلے میں پاکستان، ایران اور ترکی کو کردار ادا کرنا چاہئے اور دیگر مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ایک مضبوط اسلامی بلاک تشکیل دینا چاہئے جو معاشی اور اقتصادی طور پر اتنا مستحکم ہو کہ غریب اور کمزور مسلم ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے شکنجے سے نکال کر اپنے قدموں پر کھڑا کر سکے۔
مزیدخبریں