بجلی کے نظام میں 70ءکے دور کی مشینری استعمال، ہر روز 16 فیصد بجلی ضائع

لاہور (ندیم بسرا) واپڈا، این ٹی ڈی سی اور تقسیم کار کمپنیوں کے حکام کی عدم توجہ کے باعث بجلی کے نظام میں 1970ءکے دور کی مشینری استعمال کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہر روز 16 فیصد بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ اسی مشینری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تقسیم کارکمپنیوں کے افسران وسیع پیمانے پر گرڈسٹیشن کی بجلی انڈسٹری اور بڑی فیکٹریوں کو گھنٹے کے حساب سے فروخت کردیتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق توانائی کے زبردست توانائی بحران کے باوجود بجلی کے نظام میں استعمال ہونیوالی مشینری کی استعداد کار بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے اوسطاً 16 فیصد بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ ملکی بجلی کے نظام میں پاور ہاﺅسز میں استعمال ہونیوالی مشینری 1970ءسے پہلے کی خریدی گئی۔ منگلا پاور ہاﺅسز، تربیلا پاور ہاﺅسز میں 4 دہائیوں سے وہی مشینری استعمال ہو رہی ہے۔ اسکے ساتھ دیگر ایسے پاور ہاﺅسز کی تعداد 19 سے زائد ہے جن میں مشینری 43 برس قبل کی ہے۔ یہ مشنیری امریکہ اور جاپان کی ہے۔ ان پاور ہاﺅسزمیں فیصل آباد کا سٹیم پاور ہاﺅس، درگئی پاور ہاﺅس، شاہدرہ پاور ہاﺅس، پیرا غائب پاور ہاﺅس سمیت دیگر شامل ہیں۔ واپڈا کے متعدد پاور ہاﺅسز پرانی مشینری ہونے کی وجہ سے کئی برسوں سے بند بھی ہیں۔ دوسری جانب تمام تقسیم کار کمپنیوں کے گرڈ سٹیشن بھی اوور لوڈد ہیں۔ اگر ہم لیسکو کی مثال کو سامنے رکھیں تو لیسکو کے 50 سے زائد گرڈ سٹیشن ہیں جن میں سارے ہی اوور لوڈد ہیں ان میں 132 کے وی اے، 66 کے وی اے کے گرڈ عطا آباد، بھوگیوال، غازی آباد، شیخوپورہ، میکلوڈ روڈ، نارنگ، شامکے، شالیمار، فاروق آباد، بچیکی، واربرٹن، موہلن سمیت دیگر شامل ہیں۔ واپڈ ا کے پرانی مشینری استعمال ہونے سے جہاں بجلی زیادہ ضائع ہونے کے چانسز رہتے ہیں وہیں تقسیم کار کمپنیاں اپنے سسٹم کو اپ گریڈ بھی نہیں کرتیں۔ ہر برس کروڑوں روپے کا مینٹی نینس کا بجٹ ہر کمپنی حکومت پاکستان سے حاصل کرتی ہے اور اسکا 29 فیصد سے کم استعمال رہتا ہے۔ صارفین کو دونوں طریقوں سے اس کا نقصان ہوتا ہے ایک طرف جو بجلی سسٹم میں ہے وہ بھی ان کو نہیں ملتی بلکہ اس کا حصہ روزانہ کی بنیاد پر ضائع ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف کمپنیاں اپنا سسٹم اپ گریڈ نہیں کرتی، انکو ٹرپنگ اور اضافی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن