میٹرو بس سروس اور لیزنگ کی کاروں نے لاہور کے ٹرانسپورٹ کلچر کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف اب سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ہے کیونکہ لاہور روز بروز وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور روزگار کے وسائل زیادہ ہونے کی وجہ سے خصوصاً شمالی علاقوں سے اگر ایک خان آتا ہے تو نوکری پر لگتے ہی وہ اپنی فیملی کے مزید افراد کو باری باری بلا لیتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں داخلہ اور اخراج کے وقت شہر کے سڑکوں پر اتنی زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں کہ جیل روڈ سمیت بے شمار سڑکیں ٹریفک جام کا منظر پیش کرتی ہیں جبکہ حقیقت میں ٹریفک جام نہیں ہوتی کیونکہ ٹریفک وارڈنز صبح ہی صبح ڈیوٹی پر آ کر ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس طرف وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی نظر تو نہیں گئی ہے لیکن صوبائی وزیر رانا مشہور کی نظر ضروری گئی ہے۔ محمد شہباز شریف کی نظر اگر گئی ہوتی تو یقیناً وہ اس طرف توجہ دیتے اور ٹرانسپورٹ کا ایسا سسٹم ڈویلپ کر دیتے کہ والدین اپنے بچوں کو سکول کالج اور یونیورسٹی پرائیویٹ کاروں کے بجائے سرکاری ٹرانسپورٹ پر بھجواتے۔ شہر کے بدلتے ہوئے کلچر میں اب خواتین کو بھی ملازمت کے زیادہ مواقع مل رہے ہیں۔ مہنگائی نے ات مچا دی ہے اس لئے شریف فیملیز کی لڑکیاں بھی مجبوراً نوکری کرنے پر مجبور ہیں لیکن ان کیلئے الگ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی کوشش ماضی میں تو پنک بس سروس کی معرفت فراہم کی گئی لیکن پھر نجانے کونسی مصلحت آڑے آئی اور خواتین سے یہ سہولت واپس لے لی گئی۔ اب رانا مشہور نے لاہور میں ٹریفک کا کلچر تبدیل کرنے اور خصوصاً خواتین کو ٹرانسپورٹ کی ایک ایسی سہولت فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ دنیا کے بے شمار بڑے شہروں میں بلکہ ہمسایہ ممالک کی سڑکوں پر بھی ملازمت پیشہ اور سٹوڈنٹس لڑکیاں اور خواتین اپنی ٹرانسپورٹ کے مسئلہ کو کامیابی سے سکوٹی کے ذریعے حل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ دلچسپ حقیقت معلوم ہے کہ اٹلی میں ویسپا کمپنی نے جو سکوٹر بنایا تھا وہ خواتین کے استعمال کرنے کیلئے تھا اور وہاں خواتین میں ہی مقبول ہوا لیکن پاکستان میں یہ مردوں میں مقبول ہو گیا اور سکوٹر ایک پسندیدہ سواری کا درجہ حاصل کر گیا لیکن اب پاکستان میں سکوٹر کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ہے اور خواتین کے لئے موٹر سائیکل پر اترنا چڑھنا ذرا مشکل ہے اس لئے لڑکیوں اور خواتین کو ذاتی ٹرانسپورٹ کیلئے گاڑی استعمال کرنی پڑتی ہے جو ظاہر ہے عام گھرانوں کی لڑکیاں اور خواتین استعمال نہیں کر سکتیں۔ رانا مشہود کا منصوبہ یہ ہے کہ چین کے تعاون سے پاکستانی ماحول کے مطابق سکوٹی بنوائی جائے۔ چین پہلے ہی یہ سکوٹی تیار کر رہا ہے۔ اب منصوبہ کے مطابق یہ سکوٹی آسان قسطوں پر فراہم کرنے کا پروگرام ہے۔ غریب اور قسط ادا نہ کرنے والی لڑکیوں اور خواتین میں سکوٹی مفت بھی تقسیم کرنے کا پروگرام ہے جو کہ مستحسن ہے لیکن یہ کام اگر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے کیا جائے تو اس منصوبہ کی کامیابی یقینی ہے۔ شہر یار ملک پہلے ہی اس قسم کے موٹر سائیکل چین سے درآمد کر رہا ہے۔ رانا مشہود خان کے منصوبے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے شہر یار ملک نے نوائے وقت کو بتایا ”میں نے اس پراجیکٹ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے حکومت پنجاب کی قیادت اس لحاظ سے تعریف کے قابل ہے کہ میٹرو بس کے بعد وہ خاص طور پر خواتین کو ذاتی ٹرانسپورٹ فراہم کر کے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دے رہی ہے۔ چین سے درآمد سکوٹی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں پر پٹرول کا اضافی خرچ نہیں ڈالیں گی بلکہ اس کی مقبولیت سے لاہور میں پٹرول کی معقول بچت دیکھنے میں آئے گی کیونکہ یہ سکوٹی بیٹری سے چلتی ہے ایک بیٹری سے سو کلو میٹر سے زیادہ چلائی جا سکتی ہے ایکسٹرا بیٹری ساتھ ہوتی ہے اگر ری چارجنگ کا موقع نہ ملے تو دوسری بیٹری استعمال کی جا سکتی ہے۔ شہریار نے بتایا کہ میں نے پورا پراجیکٹ بنایا ہے کہ اگر لاہور میں ایک ایک کلو میٹر کے فاصلے پر سکوٹی کی بیٹری چارجنگ کا سٹیشن قائم کر کے سٹیشن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے بیٹری چارجنگ کی فیس بیس تیس روپے رکھ دی جائے تو سروس سٹیشن کے تمام اخراجات پورے ہو جاتے ہیں اور سکوٹی چلانے والی خواتین کو بالکل وہی سہولت حاصل ہو جائے گی جو موٹر سائیکل چلانے والوں کو پٹرول پمپ کی شکل میں حاصل ہے یعنی جس وقت بھی سکوٹی کے میٹر نے بتایا کہ بیٹری کی طاقت کم ہو گئی ہے تو وہ قریبی سروس سٹیشن سے اپنی سکوٹی کی بیٹری چارج کروا سکتی ہے۔