ٹوکیو (بی بی سی) جاپان میں ووٹ دے کر آنے والوں کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم شنزو آبے نے ایوانِ بالا میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ جاپانی ریڈیو ’این ایچ کے‘ کے تخمینے کے مطابق آبے کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کے اتحادی نیو کومی اِیٹو کے بارے میں خیال ہے کہ وہ 121 میں سے 71 نشستیں حاصل کر لیں گے۔ اس کامیابی سے انہیں چھ برسوں میں پہلی بار پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہو جائے گی۔ دونوں ایوانوں میں مخالف جماعتوں کی اکثریت کی وجہ سے حالیہ برسوں جاپان میں متعدد وزرائے اعظم بدلتے رہے ہیں۔
سرکاری نتائج پیر کو سامنے آئیں گے، تاہم ووٹروں سے لیے گئے سروے کے مطابق آبے 242 نشتوں والے ایوان میں 130 نشستیں لے کر برتری حاصل کر لیں گے۔ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں نصف نشستوں پر مقابلہ ہوا تھا۔ میڈیا پر آنے والی رپورٹوں کے مطابق ٹرن آوٹ کم رہا۔ جاپان کا ایوانِ بالا ایوانِ زیریں کی مانند طاقت ور نہیں، تاہم یہ حکومت کی جانب سے قانون سازی مسدود کر سکتا ہے۔ حزبِ مخالف کی جماعتوں نے حالیہ برسوں میں ایوانِ بالا پر قبضہ جمائے رکھا ہے، جس کی وجہ سے جاپانی پارلیمان کو ’ٹیڑھی پارلیمان‘ کہا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دھڑے بازی میں تیزی آئی ہے اور وزرائے اعظم بار بار بدلے ہیں۔ آبے نے انتخابات سے پہلے کہا تھا: ’ہمیں اپنی پالیسیاں جاری رکھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔‘ 58 سالہ آبے کو اپنی معاشی اصلاحات کے لیے مضبوط عوامی حمایت حاصل رہی ہے۔ ان اصلاحات کو ’آبے نامکس‘ کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد جاپانی معیشت کو بحال کرنا ہے جو دو عشروں سے جمود کا شکار ہے۔ جب سے ان کی اتحادی حکومت اقتدار میں آئی ہے، معیشت میں چار فیصد بڑھی ہے اور سٹاک مارکیٹ میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ توقع ہے کہ شنزو آبے معیشت کے علاوہ بھی بعض متنازع پالیسیوں کی توثیق کریں گے۔ ان میں جاپان کے جوہری بجلی گھروں کو دوبارہ چالو کرنا ہے۔ جاپان میں بہت سے لوگ اس کے خلاف ہیں کیوں کہ 2011 میں جاپان میں زبردست سونامی کے بعد ایٹمی ریکٹروں کو نقصان پہنچا تھا اور ان سے تابکاری خارج ہوئی تھی۔
ایوانِ بالا/ اکثریت