تحریکِ پاکستان کے مجاہد محترم مجید نظامی نے کہا ہے کہ ۔”چین ہمارا قابلِ بھروسا دوست ہے ،لیکن ہمارے حکمران ،سیدھے راستے پر چلتے چلتے ،گرنے کی کوشش ضرورکرتے ہیں ۔انہیں بھارت کے ساتھ 'Back Door Diplomacy' ۔ شروع نہیں کرنا چاہیے تھی۔ پاکستان کی شہ رگ ( کشمیر) کو آزاد کرائے بِنا، اُس سے تجارت کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے ۔چین نے ہمارے اِس اقدام سے غلط تاثر لِیا تو کیاہو گا “۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کا، اردومیں ترجمہ ہے ۔ ” عقبی دروازے کی سفارت کاری“۔ ایک پرانے زمانے کا لطیفہ ہے کہ ایک ہوٹل کے دروازے۔ (مین گیٹ) ۔پر، کپڑے کے ایک بینر پر لِکھا تھا۔”ماہِ رمضان کے احترام میں ہوٹل بند ہے ۔مسافر حضرات بیک ڈور ۔( یعنی عقبی دروازے)۔ سے تشریف لائیں “۔اِس طرح ہوٹل کے مالکان نے ،روزے کا احترام بھی کر دیا اور ۔” مسافر حضرات “۔ کی ضرورت بھی پُوری کر دی۔عوام۔ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں ،اوراُن کے گھروں میں ایک ہی دروازہ ہوتا ہے ،یعنی سامنے کا دروازہ، عقبی دروازہ نہیںہوتا ، لیکن بڑے گھروں میں،سامنے والے یعنی بڑے دروازے(مین گیٹ)۔ کے ساتھ ساتھ بیک ڈور یعنی عقبی دروازہ بھی ہوتا ہے ۔اقتدار کے رنگ محل میں داخل ہونے کے لئے بڑا دروازہ اور عقبی دروازہ۔ دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔عوام کے منتخب قائدِین ،بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور فوجی جرنیل ،عقبی دروازے سے ،جنرل ایوب خان ،جنرل یحییٰ خان،جنرل ضیاءاُلحق اور جنرل پرویز مشرف عقبی دروازے سے ایوان ِاقتدا ر میں داخل ہوئے ۔” قائدِ عوام“۔ ذوالفقارعلی بھٹو ،واحدسیاستدان تھے جو ، عقبی دروازے سے ،ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے،پہلے صدر سکندر مرزا نے ،مارشل لاءنافذ کر کے ،اُن کے لئے اقتدار کا عقبی دروازی کھولا اور پھر جنرل ایوب خان نے ،انہیں اپنا ۔”رُوحانی فرزند “۔ بنا لِیا۔ عقبی دروازے سے ایوانِ اقتدار میںداخل ہو نے والے جرنیلوں اور سیاستدانوں کو ۔” عقب زن“۔تو کہا جاسکتا ہے لیکن ۔” نقب زن“۔نہیں۔اِس لئے کہ ۔” عقب زن “۔ کے لئے توکسی بھی عمارت یا ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کے لئے ،عقبی دروازہ پہلے سے موجود ہوتا ہے ،لیکن ۔” نقب زن“۔ کو عقبی دروازہ بنانے کے لئے،خود محنت کرنا پڑتی ہے ۔پکڑے جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے،لیکن طاقت و ر نقب زن، کسی کی پکڑائی میں نہیں آتے اور اگر آتے بھی ہیں تو چھوٹ جاتے ہیں ۔پہلے پہل ،لاہور شہر کے 12دروازے تھے ، پھر 13واں دروازہ ۔”موری دروازہ“۔وجود میں آیا۔کنہیالال ہندی کی ۔” تاریخ لاہور“۔ کے مطابق۔ سُلطان محمود غزنوی نے جب لاہور کا محاصرہ کِیاتو، اہلِ لاہور نے مدافعت کی،لیکن لوہاری دروازے اور بھاٹی دروازے کے درمیان، فصیل کے بُرج کے گوشے کی دیوار گرا کر، سُلطان کی فوج ،شہر میں داخل ہوگئی اور جب محمود غزنوی کے چہیتے غلام، ملک ایاز نے شہر کو نئے سِرے سے آباد کِیا تو ،فتح کی یادگار کے طور پر ۔” موری دروازہ“۔بنا دیا گیا ۔مولوی نور احمد چشتی نے ۔” موری دروازے“۔ کا کریڈٹ، مہاراجا پنجاب رنجیت سنگھ کو دیا ہے کہ ۔”جب مہاراجا نے، اپنی اور اپنی ساس کی فوج کو لے کر، لاہور پر چڑھائی کی تو ،شہر کے ایک ۔” معزز شخص“۔ میاں محکم دین نے ،مہاراجا کی خوشنودی کے لئے ،دیوار تڑوادی ۔یہ جگہ بعد میں ۔” موری دروازہ“۔ کہلائی۔ پنجابی زبان میں ۔” موری“۔ سوراخ یا سُرنگ کو کہتے ہیں۔سیاست یا اقتدار کی جنگ میں بھی۔” موری دروازہ “۔ کو ہمیشہ ہی اہمیت رہی ہے ۔ہمارے یہاں، نگران وزرائے اعظم بھی ،اسی دروازے سے داخل ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات ،سات سمندر پار سے بھی تعارفی رقعہ لے کر آ جاتے ہیںکہ۔” حامل رقعہ ہذا کے لئے ۔” موری دروازہ کھول دیا جائے یا نیا موری دروازہ بنا دیا جائے “۔ ” چوراں نوں مور ،پے جانا“۔ ایک پنجابی اکھان ہے ۔اِس طرح کے مور جنگل میں ناچنے والے مور نہیں ہوتے کہ اُن کا ناچ کوئی بھی نہ دیکھ سکے ،بلکہ شہروں میں ناچتے ہیں اور شہریوں کو نچاتے بھی ہیں ۔ہمارے ایک سیاستدان، غلام مصطفےٰ جتوئی ،اکثر کہا کرتے تھے کہ ۔” مجھے صدرجنرل ضیاءاُلحق نے تین بار وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی تھی ،لیکن میں نے انکار کردیا تھا اور صاف کہہ دیا تھا کہ ۔”میں چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آﺅں گا “۔ لیکن جتوئی صاحب چونکہ۔” شرافت کی سیاست“۔ کرتے تھے،چوتھی بار انکار نہیں کر سکے ،پھر انہیں نگران وزارتِ عظمیٰ قبول کرنا ہی پڑی ۔جتوئی صاحب کے گاﺅں کا نام ۔” مورو“۔ تھا ۔مجھے نہیں معلوم سندھی زبان میں۔”مورو“۔ کا مطلب کیا ہے ۔'Do More'۔ انگریزی کی ترکیب ہے جو ،عام طور پرقصرِ سفید کے مکین ،شہنشاہوں کے شہنشاہ کی طرف سے ،اپنے باجگذاربادشاہوں کو ،بذریعہ ٹیلی فون ،بطور حُکم کہی جاتی ہے اور اُس کے ساتھ ،اُس کا ۔”ترکیبِ استعمال“۔بھی بتایا جاتا ہے ۔فارسی زبان میں ۔با مسلمان اللہ اللہ۔”بابرہمن رام رام“۔ اور پنجابی میں ۔سائیاں کدھرے تے ودھائیاں کدھرے “۔ کا روّیہ اپنانے والے شخص کو 'Double Cross' کہا جاتا ہے ۔ایک فارسی شاعر نے کہا تھا کہ ۔۔۔”معشوق ِ ما ، بشیوء ہر کس ، برابر است با ما شراب خورد ، بذاہد نماز کرد “یعنی ۔ میرے معشوق کا روّیہ ،ہر کسی کے ساتھ ایک سا ہے ۔وہ میرے ساتھ شراب پیتا ہے اور زاہد کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے ۔سیاست اور سفارت کاری میں تو عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے ،لیکن جہاں دوستی خلوص کی بنیاد پر ہو، وہاں اِس طرح کا روّیہ اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔جناب مجید نظامی ۔پُر خلوص اور دو طرفہ دوستی کی بات کر رہے ہیں ،جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ۔” چین بھی ہماری طرح، بھارت کا دشمن ہے اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ۔چین ہمارا با اعتماد دوست ہے“۔ اسی طرح کے ہی دوست سے دوستی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے ، حافظ شیرازی نے تلقین کی تھی کہ ۔۔۔” درختِ دوستی بنشاں کہ کامِ دل بیار آرد“۔یعنی دوستی کا درخت لگا ،کیونکہ اِس سے، دِل کا مقصد پھل لاتا ہے ۔دوستی کا درخت ۔دوست مُلک چین سے دوستی مزید پکّی کرنے کے لئے لگایا جائے نہ کہ دشمن کی خواہشات کے لئے، میر تقی میر ©©کی طرح سادگی اختیار کی جائے ،جیسا کہ انہوں نے اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہُوئے کہا تھا ۔۔۔”میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہُوئے ،جِس کے سبب اُسی عطّار کے، لونڈے سے دوا لیتے ہیں“عقبی دروازے سے سفارت کاری میں اگر بھارت نے پھر ۔” نقب زنی“۔ کی واردات کر دی تو ؟۔