میں روزے سے ہوں۔۔!

شاذیہ سعید
سید ضمیر جعفری کی غزل کے یہ ابتدائیہ اشعار اس وقت میرے کانوں میں مندر کی گھنٹیوں کی طرح گونج اٹھے جب سر بازار سر پر پگڑی باندھے کچھوئے کی چال چلتے ململ کا کرتا پہنے ایک صاحب دکاندار سے الجھ رہے تھے۔ حضرت دیکھنے میں اچھے خاصے باشعور اور تعلیم یافتہ لگتے تھے لیکن انکا طرز گفتار اس وقت کچھ اور ہی انداز ظاہر کر رہا تھا۔اس وقت تو حیرت کے مارے میری انتڑیوں میں بل پڑ گئے جب حضرت نے چلا کر اس دکاندار کے کان میں کہا ”میرے منہ نہ لگ میں روزے سے ہوں“۔قصہ کچھ یوں ہوا کہ یہ شخص ایک دکان پر افطاری کا سامان خریدنے کی غرض سے پہنچا، ایک تو گرمی اوپر سے خریداروں کی یہ لمبی لائن انکا دماغ بھنا گیا اور تو اور محترم نے روزہ بھی رکھا ہوا تھا جو بیوی کی بے وقت فرمائش پر انہیں بہت زرو سے لگ بھی رہا تھا، وہ لگے لائن توڑنے اور ایماندار دکاندار (حالانکہ آج کل خال خال ہی نظر آتے ہیں) کی نظر پڑی تو بلبلا اٹھے صاحب پہلے انہیں تو فارغ کر لوں وہ بیچارے کب سے لائن میں کھڑے ہیں۔ لو جی بس اتنا سننا تھا حضرت کے تو تلوے پر بجی اور سر پر لگی اوپر سے انہیں روزہ بھی لگ رہا تھا سارا غصہ جو بیوی پر تو نکال نہ پائے ایماندار دکاندار پر انڈیل دیا اب وقت بچانے کے چکر میں دکاندار نے بھی انکا منہ بند کرنے کے لئے انہیں پہلی ہی فرصت میں فارغ کیا کیونکہ وہ خود بھی روزے سے تھا۔ یہاں ایک سوال مسلسل میرے ذہن میںکلبلاتا رہا کیا وہ لوگ روزے سے نہیں تھے جو پہلے سے لائن میں کھڑے تھے۔چلئے اس قصے کو جانے دیں یہ سڑکوں اور محلوں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے گدگدی تو میرے شکم میں اس وقت ہوتی ہے جب میں سرکاری اور نجی دفاتر میں ایسے افراد کو دیکھتی ہوں جو روزہ نہیں رکھتے بلکہ دوسروں پر احسان کرتے ہیں۔ ایک صاحب کرسی پر براجمان ٹیبل پر ٹانگے رکھے اونگھ رہے تھے، ایک باریش بزرگ ان کے پاس آئے پہلے تو کشمکش میں رہے کہ اٹھاو¿ں یا نہیں لیکن کام بہت ضروری تھا اور آئے بھی بہت دور سے تھے اور افطار سے قبل گھر پہنچنا بھی ضروری تھاکیونکہ وہ بزرگ خود بھی روزے سے تھے اور گھر والوں کے لئے بھی کچھ لے کر جانا تھا۔بزرگ نے ہمت کر کے کرسی والے صاحب کو اٹھایا اور اپنا مدعا بیان کیا تو حضرت پہلے تو کھا جانے والی نظروں سے بزرگ کو گھورنے لگے، حواس بحال ہوئے تو فائل پر نظر دوڑائی اور کرسی پر ٹیک لگا کر آرام سے بولے” میں تو بھئی روزے سے ہوں“ مجھے بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے اسی وجہ سے آنکھ بھی لگ گئی اب تم نے آکر ڈسٹرب کر دیا ہے۔ اس وقت تو میں کچھ نہیں کر پاو¿ں گا دیکھو مجھ سے تو ہلا بھی نہیں جا رہا ایسا کرو کل آجانا اور فائل تھما دی بزرگ کے ہاتھ میں۔ بزرگ حضرت بھی کچھ زیادہ ہی شریف تھے بولے کچھ نہیں بس دیکھ کر رہ گئے کہ میں جو روزے سے ہوں تین ویگنوں کے دھکے کھا کر یہاں پہنچا ہوں اور ابھی واپس بھی جانا ہے میرا کیا قصور ہے۔ جناب سرکاری کو چھوڑیں نجی اداروں کا حال ہی دیکھ لیں، روزہ رکھ کر گویا ایک دوجے پر احسان کر دیا ہو، ایک دوسرے سے یوں بات کرنی ہے جیسے ”تو کون میں خامخواہ“۔ جو غلطی سے کوئی کام بتا دیا تو فائل اٹھا کر ٹیبل پر پھینکی اور بھڑک کو بولے ابھے یار کیا مصیبت ہے ایک تو ”میں روزے سے ہوں“ اوپر سے سارا کام مجھ سے ہی کروانا ہے کیا۔ اگر غلطی سے خواتین سیکشن میں چلے جائیں تو چھوٹی سی شکل بنا کر ایک خاتون ایک کونے جبکہ دوسرے تیسرے کونے میں یوں بیٹھی نظر آئےنگی جیسے ان کے بولنے پر پابندی عائد کر رکھی ہو یا پھر باس نے کوئی سزا دی ہو۔یہ معاملہ ہر خلق خدا کے ساتھ پیش آتا ہے۔
اس دفعہ روزے چونکہ گرمیوں کے موسم میں آئے ہیں اور ان کا دورانیہ بھی سولہ گھنٹے کا ہے۔ حالت روزہ میں بظاہر تو ہم بہت ہی پر سکون دکھائی دیتے ہیں ہاں لیکن دل کے حال سے کوئی بھی واقف نہیں ہوتا۔ ڈائٹ کے نام پر ہفتہ ہفتہ کچھ نا کھائیں پیئں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن احکام الہیٰ پورے کرتے ہماری جان جا تی ہے۔کچھ لوگوں کو رمضان کے شروع ہونے پر بڑی الجھن ہوتی ہے۔ وہ اس لئے کہ روزے دار انتہائی بدمزاج ہو جاتے ہیں اور ہر کام کو انتہائی مشکل تصور کرنے لگتے ہےں حالانکہ دفاتر بھی جلدی بند ہو جاتے ہیں پھر بھی سب کے چہرے اترے ہوئے ہوتے ہیں اور اگرکوئی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو وہ اس کا احسان جتانا نہیں بھولتے۔روزہ رکھنے اور نہ رکھنے والوں کے درمیان ایک لکیر سی بنتی جا رہی ہے۔ گرمی کے موسم میں کسی چھوٹے بچے کو بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا جائے تو لوگ ناراض ہونے لگتے ہیں۔ بیمار، ضعیف لوگ بھی خوف کی حالت میں رہتے ہیں کہ ”لوگ روزے سے ہیں، ہم نے کچھ کھا پی لیا تو انہیں برا لگ سکتا ہے“۔حالانکہ یہ بات روزہ دار کو بھی معلوم ہے کہ باعث مجبوری روزے کی چھوٹ ہے اس مین اتنا ناراض ہونے اور غصہ کرنے والی کیا بات ہے لیکن ہم میں برداشت کا مادہ بہت کم ہو گیا۔ بحالت روزہ چونکہ ہم چڑچڑا پن اور نقاہت محسوس کرتے ہیں تو ہمیں ہر اس چیز سے الجھن ہونے لگتی ہے جس سے ہماری توجہ میں خلل کا باعث بنے۔ صبح سحری میں اٹھنے سے لیکرا فطار تک ہم پر عجیب قنوطیت طاری ہو جاتی ہے۔ باس نے کام کہہ دیا تو غصہ آجاتا ہے، کسی نے ذرا لمبی بات کر لی تو اپنا آپا کھو دیتے ہیں، کسی نے کھانا کھا لیا تو اسے روزے کے بارے میں درس دینے بیٹھ جاتے ہیںکچھ اور نہ سوجھا تو سر پر چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ وقت تھم گیا ہے ، گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ہم سب مسلمانوں کو رمضان اور صدم کے فرائض کا علم ہے۔ ہر شخص اپنی صلاحیتوں اور صحت کے لحاظ سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ روزہ رکھیں تو اپنے اور اللہ کے لئے، دکھانے کے لئے نہیں۔ اس مبارک مہینے میں صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے یہ نہیں کہ روزہ رکھ کربار بار گھڑی کو دیکھیں کہ کب مغرب کا وقت ہوگا ،کب سائرن بجے گا اور کب ہمیں کھانے کو کچھ ملے گا۔ رمضان کا مہینہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے نفس سے بالاتر ہو کراپنی زندگی اور اعمال پر غور کر سکیں۔ماہ رمضان صبر و شکر کا موقع ہے۔
سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سال میں کچھ وقت انسان کو ایسا گزارنا چاہیے کہ وہ ”ڈائٹنگ“ کر کے اپنے نظام ہضم کو کچھ عرصہ فارغ رکھے۔ انسان کے اندر موجود رطوبتیں جو وقت کے ساتھ ساتھ زہر میں تبدیل ہو جاتی ہیں،روزے کے ذریعے ختم ہو جاتی ہیں۔ ان خطرناک رطوبتوں کے ختم ہونے سے بہت سے پیچیدہ امراض کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یوں نظام ہضم پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جا تا ہے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ روزہ کئی بیماریوں کا علاج ہے۔ ہیپاٹائٹس ، معدے کا السر، جگر کے امراض، گردے اور مثانے کی پتھری، ہائی بلڈ پریشر، لو بلڈ پریشر، سانس کے امراض، یرقان، ڈپریشن اور حاملہ خواتین کے مسائل اور ایسے سب مریضوں کے لئے نہ صرف یہ کہ یہ امراض روزے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ روزے کے اندر ان کا بڑی حد تک علاج موجود ہے۔ انسان کا نظام ہضم اور اس میں شریک اعضا مسلسل استعمال میں رہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے 24گھنٹے اور 12ماہ دائم حرکت میں رہنے والے اس نظام کے آرام کے لئے مسلمانوں پر روزے فرض کئے ہیں۔ یوں یہ روزے ہماری صحت کا اہم ذریعہ ہیں۔اسی طرح دن میں روزے کی حالت میں خون کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کمی دل کے عمل کے لئے مفید ہے۔ آج کا ماڈرن انسان کہیں زیادہ شدید تناو¿ اور ”ہائی پر ٹینشن“ کا شکار ہے۔ رمضان میں ایک ماہ کے روزے خاص طور پر ڈائسٹالک دباو¿ کم کر کے اس تناو¿کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے بے حد مفید ہیں۔کچھ دیر بھوک برداشت کرنے کی برکت سے اللہ خوشی اور رزق کی ایسی فراوانی نصیب کرتے ہیں کہ روزے کی مشقت اس کے سامنے ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔تو جناب ”میں روزے سے ہوں“ کاورد بند کر کے پرسکون ہوکر اگر پوری دلجمعی سے اپنا کام انجام دیا جائے تو روزہ لگے گا نہیں بلکہ آپ کو توانا بننے میں مددگار بھی ثابت ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن