چند سال قبل حرم مکہ میں نماز پڑھتے ہوئے میری ملاقات ایک سنجیدہ اور وجیع شکل و صورت کے عرب سے ہوئی۔ عمرے اور حج پر عام طور پر چونکہ دیگر ممالک کے عرب لوگ بکثرت جاتے ہیں مگر فلسطینی عرب بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ چونکہ فلسطینی تھے مجھے ان سے بات چیت کرتے ہوئے خوشی ہورہی تھی۔ ان دنوں مصر نے اپنی سرحدیں غزہ کے مسلمانوں کے لئے بند نہیں کی تھیں اس لئے یہ براستہ رفاہ مصر سے ہوتے ہوئے عمرہ کے لئے آئے تھے۔ ہم نے بچپن سے فلسطین کے یاسر عرفات اور ان کی تنظیم پی ایل او کا نام سن رکھا تھا، میں نے پی ایل او کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی پھر میں نے سمجھا کہ ان کا تعلق جہادی تنظیم حماس سے ہوگا، جب حماس کا ذکر ہوا تو انہوں نے دبے لفظوں میں ان کی قربانیاں اور تنظیمی کارکردگی کو سراہا۔ میں نے اس جہاندیدہ فلسطینی سے مسئلہ فلسطین کی حقیقت کریدنے کی کوشش کی تو اس نے اپنی آبدیدہ آنکھیں کعبہ سے ہٹاکر میرے چہرے پر مرتکز کردیں۔
میں نے محسوس کیا جیسے میں نے اس کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو اور وہ آغوش حرم میں بیٹھے درد کی ٹیسوں سے بے قرار ہوگیا ہو۔ بات جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا دراصل میں یونیورسٹی کا استاد ہوں اور اسلامک افیئرز پڑھاتا ہوں ثانیاً میں قومی اخبار میں کالم بھی لکھتا ہوں اس لئے سوچا آپ سے تبادلہ خیال ہوجائے۔
یہ حرم کعبہ اور حرم نبوی چونکہ ہمارے روحانی مراکز ہیں اس لئے یہاں ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے مسائل شیئر کرسکتے ہیں۔ اس نے موضوع زیر بحث پر تھوڑا غور و فکر کیا اور بادلِ نخواستہ کہنے لگا۔
’’میرے بھائی فلسطینیوں کی داستان ظلم و ستم زیادہ طویل نہیں کیونکہ یہ قضیہ ترکی میں عثمانیوں کے زوال سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ ارض فلسطین اس کے رہنے والوں پر تنگ ہوتی گئی۔ صلیبی جنگوں میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسلام دشمن قوتوں کو شکست دی تو انہوں نے طویل منصوبہ بندی کرتے ہوئے یہاں وطن اور قوم پرستی کے بیج بوئے حتیٰ کہ عثمانی خلافت کے آخری دور میں مسلم دشمنوں نے عرب و عجم کی لڑائی کا میدان تیار کیا۔
جب تک عثمانی حکومت مضبوط رہی یہودیوں کو فلسطین کی طرف میلی آنکھ دیکھنے کی جرات نہیں تھی۔ سلطان عبدالحمید ثانی کے دور کا بڑا مشہور واقعہ ہے ان کے دربار میں ایک یہودی یہ درخواست لے کر گیا کہ آپ ہمیں فلسطین کی سرزمین پر ایک خطہ زمین قیمت پر دے دیں۔
اس وقت کے مطابق یہ قیمت اتنی تھی کہ اس سے سلطنت کے قرضے ادا ہوسکتے تھے مگر سلطان نے حمیت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودی وفد کو کہا کہ عربوں کے علاقے پر ہماری حکومت ضرور ہے مگر ان کی زمین کے ہم مالک ہرگز نہیں لہذا اس طرح کی درخواست آئندہ ہمارے ہاں لے کر آنے سے گریز کیا جائے۔
یہودی وفد نے تھوڑا اصرار کیا تو سلطان نے کہا کہ اگر آپ باز نہیں آئیں گے تو میں تمہیں دربار سے دھکے مار کر باہر پھینکوادوں گا۔ یعنی عثمانی خلفاء اس قدر امین تھے اور عرب ممالک کے حقوق کا احترام کرتے تھے مگر جب عرب ممالک میں عثمانیوں کے خلاف ’’آزادی‘‘ کی تحریک چلی اور شریف مکہ نے ترکوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا تو دیگر عرب خطوں میں بھی بغاوت ابھرنے لگی۔
بدقسمتی سے اسی دور میں جنگ عظیم اول میں عثمانیوں نے برطانیہ کے خلاف برسرپیکار جرمنی کا ساتھ دیا تھا اس لئے فاتح برطانوی سامراج نے صدیوں پرانا انتقام لیتے ہوئے خلافت اسلامیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ اس دوران مسلمانوں کی کمزوری اور افراتفری سے فائدہ اٹھا کر ارض فلسطین پر یہودیوں کی اچھی خاصی آبادی منتقل ہوچکی تھی۔
یہودیوں کو برطانوی سامراج امریکہ، فرانس، روس اور دیگر یورپی ریاستیں ہرطرح کی سپورٹ کررہی تھیں انہوں نے منہ مانگی قیمتوں پر عربوں سے زمینیں خریدیں اور پھر اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن فلسطینی مسلمانوں کی قسمت میں ہجرت، بے گھری، نسل کشی اور بدامنی لکھ دی گئی ہے۔
آئے روز اسرائیلی حکومت جہاں چاہتی ہے جنگ شروع کردیتی ہے۔ فلسطینی بھاگ کر اردن، شام، لبنان، مصر اور دیگر عرب ریاستوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں، ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اردن اور دیگر پڑوسی عرب ممالک سے مار مار کر نکال دیا گیا۔
اسرائیل کی فوج نے صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں پر بمبوں سے حملہ کرکے ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو لقمہ اجل بنایا۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اسلام کے نام پر مظالم کا شکار ہیں۔ ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم فلسطینی علاقے کو اسرائیل کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ ہم اپنے بنیادی حق حریت کے لئے لڑتے ہیں، سینوں پر گولیاں کھاتے ہیں، ہمارے بچے عورتیں اور بوڑھے اسرائیلی مظالم کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ اورکوئی آپشن ہی ہمارے پاس موجود نہیں۔
اسرائیل دشمنی ہماری نسلوں میں خود بخود منتقل ہورہی ہے کیونکہ ہماری تیسری اور چوتھی نسل مہاجر کیمپوں اور بم حملوں کے سائے میں پل کر جوان ہوچکی ہے۔ ہم شہادت کو گلے لگاتے ہوئے نہیں ہچکچاتے۔ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ ہم فلسطین کو اس کی جھولی میںڈال کر ملک بدر ہوجائیں مگر یہ سودا ہمیں منظور نہیں۔ ہم آخر وقت تک لڑیں گے‘‘۔
ان کی یہ باتیں جاری تھیں۔ میں نے روک کر کہا عرب ممالک کے پاس دولت کے انبار ہیں یہ آپ کی حمایت کیوں نہیں کرتے حالانکہ آپ تو عربوں کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس سوال پر انہوں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے:
’’ہم نہ صرف عربوں کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ مگر افسوس ہے کہ پوری دنیاخاموش ہے۔ امریکہ UNO میں اسرائیل کی حمایت میں 100 سے زائد مذمتی قرار دادوں کو ویٹو کرچکا ہے مگر کسی ایک مسلمان ملک میں امریکہ کو اس کھلی جارحیت پسندی پر شرم دلانے کی جرات نہیں بلکہ انہوں نے اپنی دولت کے انبار امریکہ کے بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
قارئین 3 سال قبل یہ گفتگو آج بھی ترو تازہ ہے کیونکہ اسرائیلی مظالم میں اسی طرح کا تسلسل ہے۔ فلسطینی قربانیوں کے تازہ مناظر دل دھلارہے ہیں 13 دنوں میں ننگی جارحیت کے ہاتھوں 500 افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔
غزہ کی نیم خود مختاری بھی اب خطرے میں پڑچکی ہے۔ ایک بار پھر امریکہ کے صدر نے بڑی ڈھٹائی سے اسرائیلی وزیراعظم کی انسان کش کاروائی کو جائز قرار دے دیا ہے۔ ترکی کے وزیراعظم کے علاوہ اب تک کسی مسلمان حکمران نے اسرائیل یا امریکہ کو شرم نہیں دلائی۔ حیف ہے ایسی باطل پرست بزدل بے حمیت قیادتوں پر اور افسوس ہے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبہ ایمانی پر۔ گویا مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہیں۔
٭…٭…٭
’’مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہیں‘‘
Jul 22, 2014