لاہورہائیکورٹ نے زیر سماعت ایک کیس کے دوران ریماکس دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عدالتیں میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنائینگی‘ اب وہ دور گیا جب سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی تھیں۔ فاضل عدالت نے تصوراتی دنیا میں رہتے ہوئے اتنا بڑا بیان دے ڈالا اور یوں لگتا ہے کہ مذکورہ ریمارکس دینے والے جج صاحب اردگرد کے حالات واقعات کا مشاہدہ نہیں کرتے‘ اخبارات نہیں پڑھتے‘ ٹی وی چیلنز نہیں دیکھتے متاثرین کی آہ و بکا انکی سماعتوں سے نہیں ٹکراتی۔ اگر معزز عدالت اسکے قابل احترام جج حالات کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے اور ارد گردکے ماحول اور حالات سے باخبر ہوتے تو اتنا بڑا دعویٰ کبھی نہ کرتے جاں کی امان پائوں تو عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ میرٹ کی جتنی پامالی گذشتہ اور موجودہ حکومتوں کے دوران ہوئی اور ہو رہی ہیں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ مذکورہ معزز عدالت بالخصوص جج صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ سیاسی اداروں میں سیاسی اثر و رسوخ کا عمل دخل آئے دن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس میں کمی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جو سسٹم اور نظام کرپٹ ہو جائے وہاں خیر کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کی درجنوں نہیں سینکڑوں ہزاروں مثالیں موجود ہیں اور یہ وہ مثالیں ہیں جو حقداروں کا حق مار کر قائم کی گئی ہیں چند ایک پر اکتفا کروں گا۔پنجاب حکومت کے زیر انتظام چلنے والا ایک ادارہ جسے بنک کا نام دیا جاتا ہے۔ یقین کیجئے کہ اسکے قیام سے لیکر آج تک یہاں سیاسی مداخلت دھڑے کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ پرویز الٰہی حکومت ہو یا موجودہ حکومت ہر حکومت نے بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے۔ میں ایک ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو جانتا ہوں جو بلا کا محنتی ہونے کے علاوہ ذہین اور ایماندار بھی ہے تعلیم ہے اسکی ڈبل ایم اے مگر اسے آٹھ سال بعد بھی پروموشن نہیں ملی اور اسے سینئر کلرک والا سٹیٹس دیا گیا ہوا ہے۔ اور میں یہ بات بڑے دعوے کے ساتھ بیان کر رہا ہوں کہ شہبازشریف سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب کا ایک چہیتا افسر جو ان کی ٹیم کا ایک اہم ممبر بھی ہے مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوتا ہے تو خادم پنجاب اسے دوبارہ نوکری دے دیتے ہیں اس دوبارہ تقرری پر بعض قانونی حلقوں کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا تو معاملے کو عارضی طور پر دبا دیا گیا یقین کیجئے شہبازشریف کا وہ چہیتا افسر آج بھی چیف منسٹر کے ذاتی سٹاف میں کام کر رہا ہے اور وہ بھی تمام تر مراعات کے ساتھ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ انصاف اور میرٹ کہاں ہیں قانون نے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں دوسری طرف ہزاروں نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ذمہ دراوں کی جانوں کا سیاپا کر رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ سانحہ ماڈل ٹائون کی پاداش میں مستعفی کرا دئیے گئے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ آج بھی وزیر والی مراعات حاصل کر رہے ہیں گاڑی اور رہائش گاہ وہی ہے جو دوران وزارت تھی۔ پنجاب کے ایک سرکاری ادارے میں تقرریوں کیلئے انٹرویوزاور تحریری ٹیسٹ لئے گئے۔ آپکو یہ جان کر دکھ ہو گا حیرت ہو گی کہ کامیاب امیدواروں کی فہرست ریلیز ہونے سے پہلے میں پنجاب کی ایک سرکردہ سیاسی شخصیت کی ٹیبل پر تھی اور پھر کیا ہوا وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کامیاب امیدواروں کی جگہ وہ نام ڈالے گئے جو انٹرویو اور ٹیسٹ میں شریک ہی نہ تھے۔ سیاست سیاسی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ چکی ہے‘ اس لوٹ کھسوٹ نے پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ پاکستانی اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہیں خودکشیوں کی شرح بڑھ چکی ہے موجودہ ٹولہ لوگوں کو انصاف دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔ آئیے تلاش کریں ایک خوف خدا رکھنے والا لیڈر جو ڈوبتی کشتی کو سنبھالا دے سکے۔ حرف آخر‘ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت بھی تھی آج بھی ہے اور نظام بدلنے تک رہے گی اللہ پاکستان کی حفاظت کرے آمین!