علّامہ طاہر اُلقادری نے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو چیلنج دِیا تھا کہ ’’آپ میرے ساتھ مناظرہ کر کے ثابت کریں کہ آپ وزارتِ عظمیٰ کے اہل ہیں یا نہیں؟‘‘ وزیرِاعظم نے یہ چیلنج قبول نہیں کِیا لیکن حکومتِ پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے شاید ’’سپورٹس مَین سپِرٹ‘‘ کے طور پر یہ چیلنج قبول تو کر لِیا ہے لیکن انہوں نے علامہ طاہر اُلقادری صاحب سے مناظرہ کرنے کے لئے چیئرمین عُلماء کونسل علّامہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی صاحب کو پیش (یا نامزد) کر دِیا ہے۔ اشرفی صاحب نے کہا کہ ’’طاہر اُلقادری صاحب سے بہت سے مسائل پر مناظرے کی ضرورت ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ قیامت کی صبح تک میرے ساتھ مناظرے کے لئے نہیں آئیں گے۔‘‘ علّامہ طاہر اشرفی علّامہ طاہر اُلقادری کی عادت یا مزاج کوجانتے ہونگے وگرنہ شاعر نے تو اپنے محبوب کو یقین دِلاتے ہُوئے کہا تھا کہ ؎
’’میں انتظار کروں گا تیرا قیامت تک
خُدا کرے کہ قیامت ہو اور تُو آئے!‘‘
سینیٹر پرویز رشید کو بھی ’’بادشاہ لوگوں‘‘ میں شمار کِیا جانا چاہیے۔ اگر قومی اسمبلی میں قائدِ اختلاف سیّد خورشید شاہ جنابِ وزیرِاعظم کی اہلیت کو چیلنج کرتے اور انہیں مناظرے کا چیلنج کرتے تو بات اور تھی علّامہ طاہر اُلقادری نے شیخَ اُلاِسلام‘‘ کا تاج تو اپنے چہرے پر سجا لیا ہے لیکن اُن کی سیاسی اوقات تو کچھ بھی نہیںہے۔ وہ تو موریؔ ممبر بھی نہیں ہیں۔ یوں بھی موصوف دُہری شہریت کے حامل ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی شخص بیک وقت دو آقائوں کا وفادار نہیں ہو سکتا۔‘‘ طاہر اُلقادری پیدائشی طور پر تو پاکستانی تھے لیکن کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کی (جو آئینی طور پر کینیڈا کی بھی ملکہ ہیں) وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ یعنی ؎
’’جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یُوں بھی ہے اور یوں بھی‘‘
وزیرِاعظم نواز شریف اور علّامہ طاہر اشرفی خالصتاً پاکستانی ہیں۔ بھلا وہ کسی غیر ملکی سے مناظرہ کیوں کریں؟ لیکن علّامہ طاہر اشرفی شاید ’’مفادِ عامہ‘‘ کے لئے تیار ہو گئے۔ وہ طاہر اُلقادری صاحب اور اُن کے نام نہاد انقلاب کو ایک فِتنہ سمجھتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ مناظرہ صِرف ایک نُکتے پر ہو کہ ’’علّامہ طاہر اُلقادری صاحب! آپ نے جولائی 1993ء میں فرمایا تھا کہ ’’مجھے خواب میں سرکارِ دوعالمؐ نے بشارت دی ہے کہ میری عُمر آپؐ کی عُمر کے برابر 63 سال ہو گی اور یوٹیوب پر آپ کی ویڈیو بھی موجود ہے۔ اگر آپ کا خواب سچا تھا تو 19 فروری 2014 ء کے بعد آپ اب تک زندہ کیوں ہیں؟ آپ تو 19 فروری کو ہی 63 سال کے ہو گئے تھے؟
یہ مولانا طاہر اشرفی کا حوصلہ ہے کہ وہ ’’شکل مومناں‘‘ سے مناظرہ کرنے جا رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ علّامہ طاہر اشرفی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں ہیں تو سینیٹر پرویز رشید کے اُن پر اعتماد سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے وزیرِاعظم کی وکالت کرنے کی اہلیت ضرور رکھتے ہوں گے۔ ایسی صورت میں علّامہ طاہر اُلقادری سے وزیرِاعظم کا مفروضہ مناظرہ اصالتاً نہیں بلکہ وکالتاً ہو گا حالانکہ علّامہ طاہر اشرفی پیشے کے لحاظ سے وکیل نہیں ہیں۔
علّامہ طاہر اُلقادری نے وکالت کا امتحان پاس کِیا تھا اور اُن کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ’’سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی سرونگ اور ریٹائرڈ جج اور سنیئر ایڈووکیٹس لاء کالج لاہور میں ان کے شاگرد رہ چُکے ہیں۔‘‘ یہ الگ بات کہ جب طاہر اُلقادری صاحب نے فروری 2013 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں الیکشن کمِشن آف پاکستان کو تحلیل کرانے کا مقدمہ (بحیثیت وکیل) خود لڑا تو وہ ہار گئے تھے۔ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اُن کے دو ساتھی ججوں نے فیصلہ دے دِیا تھا کہ ’’علّامہ طاہر اُلقادری اپنی درخواست میں خود کو ’’نیک نِیّت‘‘ ثابت نہیں کر سکے۔‘‘ (اُن دِنوں) اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب عرفان قادر نے بھی رائے دی تھی کہ ’’علّامہ طاہر اُلقادری کے ہاتھ صاف نہیں (یعنی گندے یا مَیلے) ہیں۔‘‘ اِس پر ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا تھا کہ ؎
’’لئے پھرتے ہو زُہدؔ کے تَھیلے
دِل بھی مَیلا ہے ہاتھ بھی مَیلے‘‘
سینیٹر پرویز رشید نے علّامہ طاہر اُلقادری سے مناظرہ کرنے کے لئے علّامہ طاہر اشرفی کو پیش یا نامزد کیوں کِیا؟ وہ راز صِرف مَیں ہی جانتا ہوں۔ ’’وچلی گلّ‘‘ یہ ہے کہ رُستمِ زماں بھولو پہلوان (مرحوم) میاں نواز شریف کے سُسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ پاکستا ن یا کسی بیرونی ملک کا کوئی بھی پہلوان جب جناب بھولو پہلوان کو کشتی لڑنے کا چیلنج دِیا کرتا تھا تو جنابِ بھولو کے منیجر کی طرف سے اُسے یہ کہا جاتا تھا کہ ’’تم پہلے بھولو پہلوان کے دو بھائیوں میں کسی ایک سے ’’اچھا‘‘ (اسلم پہلوان) اور ’’اکی‘‘ (اکرم پہلوان) سے کُشتی لڑو! اور اگر تمہاری ہڈی پسلی سلامت رہ جائے تو بھولو پہلوان سے بھی کُشتی لڑنے کا شوق پورا کر لینا۔‘‘ عام طور پر بھولو پہلوان کو چیلنج کرنے والا پہلوان اچھا پہلوان یا اکرم پہلوان سے ہار جاتا تھا۔ اِس لحاظ سے سینیٹر پرویز رشید نے علّامہ طاہر اشرفی کو وزیرِاعظم نواز شریف کے ’’اعزازی برادرِ خورد‘‘ کا ٹائیل دے دِیا ہے کیونکہ وزیرِاعظم نواز شریف کے حقیقی بھائی خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو اِن دِنوں
’’پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا‘‘
قِسم کے کاموں میں مصروف ہیں۔ علّامہ طاہر اُلقادری کہتے ہیں کہ ’’مَیں تو صِرف وزیرِاعظم صاحب سے مناظرہ کروں گا!‘‘ شوق اچھا ہے لیکن وزیرِاعظم کسی ایرے غیرے کو اپنے برابر یا مقابل کیوں بٹھائیںگے؟ اُدھر علّامہ طاہر اُلقادری کو محسنِِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے بھی ایک چیلنج کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ’’علّامہ طاہر اُلقادری نے پاکستان واپس آنے سے پہلے ہی اپنے بیٹے نہیں بلکہ دوسروں کی اولادیں مروا دِیں۔‘‘ یہی سوال ’’طالبان کے والد صاحب اور برادرانِ بُزرگ و خورد‘‘ سے بھی پوچھنا چاہیے کہ ’’آپ کے خاندان کے کتنے نوجوانون خودکُش حملہ آور بن کر ’’جامِ شہادت‘‘ نوش کر چُکے ہیں؟
برطانوی نشریاتی ادارے، بی بی سی کی خبر کے مطابق ’’ارجنٹائن کے چڑیا گھر میں مقّید ’’دُکھی برفانی رِیچھ‘‘ کو کینیڈا منتقل کرنے کی آن لائن "Petition" پر تقریباً دو لاکھ افراد دستخط کر چکے ہیں۔‘‘ میرا طاہر اشرفی صاحب کو مشورہ ہے کہ ’’اگر علّامہ طاہر اُلقادری آپ سے مناظرہ نہ کریں تو آپ مخلوقِ خُدا سے ہمدردی کے پیش ِنظر ارجنٹائن کے ’’برفانی دُکھی رِیچھ‘‘ کو کینیڈاؔ منتقل کروانے کے لئے پاکستان میں بھی دستخطی مہم چلائیں۔ مَیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مَیںاور میرے ’’لاکھوں ساتھی‘‘ اِس دستخطی مہم میں آپ کا ساتھ دیں گے۔