یہ وجدانی قوت کا کرشمہ ہے نہ یقین کی حدوں کو چھونے والے گمان کا کمال ہے بلکہ درپیش صورتحال کا جائزہ ایسے امکانات کی خبر دے رہا ہے کہ ملک میں موجودہ نظام عالم نزاع میں ہے اور بے رحم احتساب اس کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ کراچی میں رینجرز کی موجودگی میں توسیع ہوگئی ہے تاہم اس حوالے سے عمومی رائے ہے کہ سندھ حکومت نے اس توسیع کی منظوری خوش دلی سے نہیں بلکہ یہ حکومت پر شدید دبا¶ کا نتیجہ ہے جبکہ ماضی میں پیپلزپارٹی کی یہی حکومت کراچی میں رینجرز کی موجودگی میں توسیع کے سلسلے میں خوش دلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور سندھ میں قائم علی شاہ حکومت اس شدید خواہش کی ڈور سے بندھی نظر آتی ہے کہ کراچی میں نہ صرف رینجرز بلکہ نیب بھی اپنی سرگرمیاں اگر بند یا معطل نہیں کرتیں تو کم از کم اس کے زاویئے تبدیل کر دیں کیونکہ اب ان دونوں اداروں کی سرگرمیوں اور کارروائیوں نے پیپلزپارٹی کے بڑوں سمیت مختلف سطح پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی قریب میں رینجرز کی کارروائیاں بالواسطہ اور بلاواسطہ پیپلزپارٹی کے سیاسی مقاصد کی آبیاری کرتی رہی ہیں۔ رینجرز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی قیادت دبا¶ کا شکار ہوئی تو پیپلزپارٹی کی قیادت نے دستِ شفقت رکھ کر اسے اپنے سیاسی مقاصد کا ایندھن بنا لیا اور اگر کسی وجہ سے پیپلزپارٹی کے لئے سیاسی مشکل نے سر ابھارا تو ایم کیو ایم کی قیادت نے اسے موقع غنیمت جانا اور مطالبات منوانے کے لئے جو عام حالات میں نہیں مانے جا سکتے تھے منوا لئے۔ خطرے کے وقت ایک دوسرے کے لئے پناہ گاہ بننے والی یہ جماعتیں بیک وقت دبا¶ کا شکار ہو گئی ہیں اور دونوں کو اپنی اپنی پڑ گئی ہے۔ ایم کیو ایم پر قتل، دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین الزامات ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو وسیع پیمانے پر مالی دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے اسے کوتاہ نظری قرار دیا جا سکتا ہے مگر وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے فوج کے ساتھ وہ عملی تعاون نظر نہیں آرہا جو دہشت گردی کے خلاف مہم میں محسوس کیا جاتا ہے۔ جہاںتک مندرجہ بالا الزامات کے تحت ایم کیو ایم کے مواخذہ کا تعلق ہے وزیراعظم اس سلسلے میں بہت کسی بھی نوع کے تحفظات نہیں رکھتے جہاں تک مالی دہشت گردی کو بیخ و بن کے اکھاڑنے پھینکنے کیلئے کارروائی کا تعلق ہے ان کی جانب سے تعاون کا دامن مطلوبہ جوش و خروش سے خالی نظر آرہا ہے بالخصوص پیپلزپارٹی کی قیادت کی مالی دہشت گردی کے خلاف احتساب کا عمل بعض حوالوں سے عدم تعاون کا احساس ذہنوں میں پیدا کررہا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم نوازشریف اس خواہش کے اسیر نظر آتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نہ تو سیاسی منظر سے غائب ہو اور نہ ہی اتنی کمزور ہوجائے کہ تحریک انصاف سمیت کوئی اور سیاسی جماعت متبادل سیاسی قوت بن جائے اور پیپلزپارٹی کی نسبت زیادہ پریشان کن اپوزیشن کا روپ دھارلے۔
نیب کے موجودہ چیئرمین قمرالزماں چودھری جو وزیراعظم نوازشریف کے دیرینہ ”خدمت گار“ کی شہرت رکھتے ہیں اسی ”خدمت گزاری“ کو ہی میرٹ بنا کر اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دلوا کر نیب کا چیئرمین بنایا گیا تو بہت سے ذہنوں میں کلبلانے والے اندیشے اور خدشات الفاظ کا جامہ پہن کر نوکِ زبان پر آگئے تھے کہ یہ تقرری ”سیاہ“ کو”سفید“ کرنے کی کرشمہ سازی کیلئے ہے مگر جی ایچ کیو میں طلبی کے بعد قمرالزماں چودھری کے معمولات میں تبدیلیوں کے خدوخال واضح طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں کرپشن نے کسی خاص فرقے، طبقے یا علاقے کے وابستگان کا جینا دوبھر نہیں کیا بلکہ من حیث القوم پورے پاکستانی عوام کو اپنے استبدادی جبڑے میں جکڑا ہوا ہے یہ عفریت اقتدار وا ختیارات کا حامل وہ طبقہ ہے جس نے تمام فائدوں، مراعات اور ملکی وسائل سے ہر طرح کے استفادہ کا رُخ اپنے گھروں (کینالوں، ایکڑوں پر پھیلی رہائش گاہوں اور فارم ہاﺅسوں) کی جانب موڑ دیا ہے ادھر عوامی سطح پر پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے شاید عدم اتفاق کیا جائے مگر عوامی سطح پر چھائی خاموشی میں ایسا طوفان پرورش پارہا ہے جو موجودہ نظام کو خس و خاک کی طرح بہالے جائے گا اور بعض حوالوں سے بھی اعلیٰ ترین سطح پر رویوں میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے اس لئے اس طوفان کی آمد کی مدت آئندہ چھ سات مہینوں سے زیادہ نہیں لگ رہی۔ہر روز سامنے آنے والی کروڑوں، اربوں کی کرپشن نے عوام کو مبہوت کررکھا ہے بہرحال کرپشن کے خلاف جس مہم کا آغاز کیا گیا ہے اسے بہرصورت منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے آج پوری قوم کی نظریں فوج پر لگی ہیں کہ فوج‘ پاکستان کو جنگی بنیادوں پر کرپشن سے پاک کرائے۔ سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں نوازشریف میرے لئے قابل ترجیح ہیں کاش بے لاگ احتساب کی تاریخ وہ رقم کرسکتے۔کتنے صاحب اقتدار تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہوگئے مگر صاحب کردار تاریخ کا جھومر ہیں‘ انسان کیلئے فی الدنیا حسنتہ کے ساتھ ساتھ فی الآخرہ حسنتہ کی دعا بھی ضروری ہے۔