اس مرتبہ جس آدمی کی عید سب کے لئے خبر بنی۔ باتوں کا موضوع بنی۔ وہ سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف کی عید تھی۔ لوگ تو گھروں کو جاتے ہیں۔ وزیرستان کا میدان جنگ جنرل صاحب کا گھر ہے ایک جذبے والے بہادر سپاہی کا گھر میدان جنگ ہی ہوتا ہے۔ تو جنرل صاحب نے اپنے گھر والوں کے ساتھ عید منائی اپنے جوانوں سپاہیوں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ عید منائی نعرے بھی لگائے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد‘ جیسے بھی ہو سب لوگ اپنے ماں باپ رشتہ داروں کے ساتھ جا کے عید مناتے ہیں۔ ریل گاڑیوں میں رش کا خیال نہیں کرتے۔ بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر خطرہ مول لے کے خوش خوش جاتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ موسی خیل ضلع میانوالی میں عید کیسے کیسے ہوتی تھی۔ جنرل راحیل کے گھر والے بھی ہیں رشتہ دار اور عزیز مگر وہ اپنے روحانی رشتہ داروں کے پاس گئے وزیرستان کے مکین پاکستان سے محبت کرنے والے ان کے رشتہ دار ہیں وہ وہاں رہتے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ جنرل راحیل کے اس معرکے نے ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ کسقدر حوصلہ افزا جنرل کا یہ جملہ ہے۔ قوم کا اعتماد اصل اثاثہ ہے۔ جو مشن بھی سونپا جائے گا اسے پورا کرنے میں قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔
حکمرانوں کی عید منانے کی بات اس دفعہ نہ ہوئی۔ مجیب الرحمن شامی کہتے کہ صدر پاکستان ممنون حسین پاکستان میں تھے تو انہیں وزیرستان میں جانا چاہئے تھا۔ یہ اچھی بات ہے مگر ان کے پاس اس بات کا جواب بھی ہو گا مگر انہوں نے ہرگز نہیں کہا کہ حکمران عید گھر کیوں نہیں مناتے؟ وطن بھی گھر ہوتا ہے۔ یہ تو محسوس کرنے والی بات ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نواسی کی رسم نکاح عید کے موقعے پر سعودی عرب میں ادا کی۔ یہ تقریب حجاز مقدس میں ہوئی ہو گی مگر خبر اسی طرح آئی ہے کہ یہ رسم نکاح سعودی عرب میں ادا کی گئی۔ اس کے لئے مبارکباد کی مستحق مریم نواز ہیں۔ نواز شریف نے بھی اپنے نانا ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ بچی کی نانی کلثوم نواز بھی ہوں گی۔ حجاز مقدس ننھیال کی عظیم روایات کا خطہ ہے۔
نواز شریف نے اپنے والد بڑے میاں صاحب کو دفنانے کے لئے ان کا جسد خاکی پاکستان بھیجا تھا۔ یہاں ان کو قبر میں اتارنے کے لئے ان کے جگری یار صدر رفیق تارڑ موجود تھے۔ میں بھی لوگوں کے ہجوم میں کہیں تھا۔ تو میری بچی مریم نواز کی بیٹی کی رسم نکاح بھی رائے ونڈ میں ہو سکتی تھی۔ لاکھوں بیٹیوں کی رسم نکاح اپنے اپنے پنڈ (گا¶ں) میں ہوتی ہے۔ ماں کا گھر بیٹی کا ایک ٹھکانہ ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں مجھے جنرل راحیل شریف کے وزیرستان میں اگلے مورچوں پر گھروں سے دور جوانوں کے ساتھ عید منانے پر یاد آئیں۔ انہیں محسوس ہوا ہوگا کہ عید ہم نے اپنے بڑوں کے ساتھ منائی ہے میں جنرل صاحب اور ان کے ساتھ عید منانے والوں کو بھی عید مبارک کہتا ہوں۔ میرے پاس اس کے علاوہ ان کے لئے عید کا کوئی تحفہ نہیں ہے۔ انہوں نے ہماری عید بنا دی ہے۔ ورنہ عید کا دن بھی چھٹی کے دن کی طرح گزر جاتا ہے۔ شہباز شریف بھی لندن چلے گئے۔ شریف برادران کبھی اپنے پرانے مقام گوالمنڈی کے آس پاس اپنے ووٹرز کے ساتھ بھی عید کی نماز پڑھیں اور عید منائیں ”صدر“ زرداری تو اپنے اصل گھر دبئی میں عید کر رہے ہیں پارٹی کے اجلاس بھی وہاں ہونے لگے ہیں۔
اس بار برادرم شاہد رشید صبح سات بجے گھر آگئے عرفان چودھری ساتھ تھا۔ مجھے باقاعدہ اغوا کرکے لے چلے۔ راستے میں عباس ملک کو بھی لیا اور آستانہ چورا شریف میں پیر کبیر علی شاہ کے ساتھ نماز عید ادا کی۔ لوگوں میں بڑا جذبہ تھا۔ پیر صاحب نے مختصر خطاب بھی کیا۔ پیر فرید کی طرح یار فرید بھی بن جاتے ہیں ایک دوستانہ روحانیت کا رشتہ بہت دوستوں پر بھاری ہے۔ پیر اگر دوست بھی ہو اور سوہنا بھی ہو تو اس کی زیارت بھی عید کی طرح ہوتی ہے۔ برادرم انور رشید بھی آگئے۔ وہ بڑے بھائی کے دوست ہیں۔ ان کی محبتوں کے مجھ سے بھی زیادہ قائل ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ دوچار دن پہلے پروفیسر اکبر نیازی سے بات ہوئی۔ وہ آج بھی اتنی ہی محبت والے ہیں جسے تیس برس پہلے تھے۔
وہاں سے ہو کے ہم محترمہ رمیزہ نظامی کے پاس گئے۔ مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی سے عید ملا کرتے تھے۔ شاہد رشید کئی بار ساتھ ہوتے۔ اس روایت کو نبھانے ان کی جانشین بیٹی ایڈیٹر نوائے وقت رمیزہ بی بی کے پاس حاضر ہوئے۔ ان کو بھی اپنے والد کی طرح ارادوں سے بھرپور پایا۔ مجید نظامی کی خوشبو ہر طرف پھیلتی چلی گئی۔
ہم لوگ ترے شہر میں خوشبو کی طرح ہیں
محسوس تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے
تسنیم کوثر کا یہ شعر میرے محسوسات میں ہر وقت مہکتا رہتا ہے۔ رمیزہ نظامی نے کہا کہ مجید نظامی کا متبادل تو کوئی بھی نہیں ہو سکتا مگر ان کے راستے کو آباد رکھنا ہمارا مشن ہے۔ ان کی یاد سے آباد رمیزہ نظامی کو ہم نے اپنے والد کی طرح پرعزم پایا۔ شاہد رشید نے عجیب جملہ کہا کہ آپ عمر میں ہم سے چھوٹی ہیں مگر مجید نظامی کے ساتھ نسبت نے مرتبے میں آپ کو بہت بڑا کر دیا ہے۔ اس بڑائی کو سنبھالے رکھنے میں ہی اصل مرتبہ ہے۔
اس کے بعد ہم صدر رفیق تارڑ کے گھر گئے بڑے بڑے مناصب پر فائز رہنے والا شخص کتنی سادگی اور آسودگی سے رہتا ہے۔ وہ عید بھی اسی حال میں مناتے ہیں پھر ہم چیف جسٹس محبوب احمد کے پاس گئے۔ وہ چیف جسٹس تو تھے بھی ایسے ہی تھے۔ اب بھی ایک جلال اور وقار ان کی شخصیت میں ہے۔ انہوں نے پرانے دنوں کو یاد کیا۔ یہ اپنی زبردست ماں کی عدالت کا تذکرہ تھا۔ پرانے دنوں کی ماں بھی اپنی ذات میں چیف جسٹس ہوتی تھی۔ مگر وہ اپنی ماں کے سامنے بھی اپنا موقف بہت ہمت کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ ایک جسٹس کو اپنی ذات میں ایک ماہر وکیل کو ساتھ ساتھ رکھنا چاہئے۔
ساتھ میں اپنے ڈاکٹر رفیق احمد کا گھر بھی ہے مگر وہ ابھی عید کی نماز کے بعد واپس گھر نہیں پہنچے تھے۔ نظریہ پاکستان کے فاروق الطاف سے ملے ان کے صاحبزادے نے بتایا کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا شاگرد تھا۔ وہ امریکہ چھوڑ کے اب پاکستان آ گیا ہے۔ وہاں عید منانے بلکہ عید ملنے کا مزا نہیں آتا تھا۔
گورنر ہاﺅس رستے میں تھا تو ہم گورنر سے عید ملنے نہ گئے۔ رفیق رجوانہ سے عید ملنے گئے۔ گورنر ہاﺅس ایک اجڑے ہوئے دیار کی طرح لگا۔ مگر یہ کریڈٹ تو رجوانہ صاحب کو جاتا ہے کہ گورنر ہاﺅس میں لوگ رنگ رلیاں مناتے ہیں مگر رجوانہ صاحب نے یہاں عید کی طرح عید بھی نہیں منائی۔ وہ مجید نظامی صاحب کے ساتھ آخری دنوں کے روابط کو یاد کرتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں اور خوش کر دیتے ہیں۔
میں پہلی مرتبہ عید کے دن گھر سے نکلا۔ مزا آ گیا۔ دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم عید پر کیوں نہیں جاتے۔ میں نے لاہور کو گھر بنا لیا ہے۔ میرا والد بہت پہلے چلا گیا تھا۔ اصل گھر تو وہی ہے۔ ماں میرے پاس آ گئی ہے۔ وہ ہر عید پر مجھے دعا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ گھر کیا ہوتا ہے۔ وہ گاﺅں میں ہوتی تو میں وہاں عید مناتا۔