قارئین!آج کالم لکھتے وقت ہمارے سامنے بلکہ ہمارے اردگرد فکرمند قارئین کے اتنے خطوط جمع ہیں‘ اتنے دردناک حقائق اور خوفناک سچائیوں سے بھرپور کہ جنہیں پڑھ کر ہمارے دکھ کا قلم سے کالم تک اتر آنا ایک حتمی امر ہے۔ سمجھ نہیںآرہی کہ کس خط کا جواب دیا جائے اور اگر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا جواب دیا جائے؟ ہر لکھنے والے کا ایک ہی سوال ہے کہ کیا آج سے نصف صدی پہلے اپنے بزرگوں کی لاکھوں قربانیوں کے بدلے میں ہم کو جو وطن نصیب ہوا تھا‘ کیا وہ صرف خواص کیلئے بنا تھا؟ کیا اسکے حصول میں لاانتہا قربانیوں کا حصہ ڈالنے کے باوجود ہمارے حصے میں کچھ نہیں آیا؟کیا اسکے سبزہ زار‘ ہیرے جواہرات سے بھرے پہاڑ‘ بہتی چاندی جیسے دریا‘ سمندر‘ سربکف عمارتیں‘ اس کے وسائل سے حاصل شدہ چیونٹیوں کی طرح سڑکوں پر رینگتی ہوئی کاریں‘ محلات‘ مرغ و متنجن‘ رشوت‘سفارش‘ کمیشن‘ سمگلنگ‘ کی کھلم کھلا سہولتیں‘ اربوں روپوں سے لبالب بھرے ہوئے بینک۔ کیا یہ سب کچھ امیروں کیلئے مخصوص ہے؟ کیا ہمارا عوام ہونا اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ ہمارے بچے پوری زندگی ادھورا کھائیں؟ ادھار کھائیں‘ گندے جوہڑوں کا پانی پئیں؟ تعلیم کی روشنی سے محروم ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پردھکے کھائیں‘مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ‘ بیروزگاری ان کا مقدر ہو؟ مہلک بیماریوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑکر مر جائیں جبکہ ’’خواص‘‘ اپنی بیماریوں سے پنجے لڑانے کیلئے باہر سے ڈاکٹر منگوائیں یا پائوں میں سلیپر ڈال کر امریکہ اٹھ جائیں؟ ہماری تنخواہیں صرف اتنی ہوں کہ جس میں صرف بجلی اور پانی کا بل دیا جا سکے‘ مکان کا کرایہ ناممکن ہو؟ آخر ہمیں قائداعظم کی عطا کردہ فضائوں میں کھلی سانس لینے کی مہلت اور اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ کیا ہم قائداعظم کے نواسے کی طرح دھرتی ماں کے کچھ نہیں لگتے؟ ہم غریب عوام جو کرپشن کے معنی ہی نہیں جانتے ’’خواص‘‘ کی ساری کرپشن ہمارے سر کیوں (عملاً) منڈھ دی جاتی ہے؟ ہم مٹی بھرا آٹا زر جواہر کے مول خریدتے ہیں اور ’’خواص‘‘ کے زر و جواہر پر مٹی پر رُلتے ہیں؟ ہر آنیوالی حکومت سابقہ حکومت کی کرپشن اور خالی خزانے کا شور مچاتی آتی ہے اور اپنے ذاتی خالی خزانے بھرنا شروع کر دیتی ہے۔ آخر ’’خواص‘‘ جیسے سانڈوں کی لڑائی میں ملک کا بوٹا کیوں اکھیڑا جا رہا ہے؟ اگر ’’چور‘‘ چوروں کی رسائی میں نہیں ہیں تو وہ کسر ہم سے پوری کر لیں۔ آئیںہم غریبوں کیخلاف’’غربت‘‘ کے مقدمے درج کریں۔ بخدا ہم آپ کو نہیں خلفائے راشدین کی عدالتوں میں ضرور جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ وہ وقت گیا جب خود خلفائے راشدین عوامی عدالتوں میں جوابدہ ہوتے تھے۔ جناب والا مہنگائی اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں غریب اپنا ہاتھ اپنے ہی منہ تک نہیں لے جا سکتے۔ چہ جائیکہ خواص اور امراء کے ہاتھ آگے بڑھا بڑھا کر انکے منہ سے نوالہ چھین رہے ہیں۔ ہر روز کروڑوں روپے عیش و عشرت پر خرچ کرنیوالے کیا جانیں کہ ہر روز کتنے دریائوں کے کنارے کتنے کتے بھوکے مر جاتے ہیں؟ سارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اونچے ایوانوں کے سفید جھاگ جھاگ پردوں کے پیچھے سے بھوکے عوام کسی کو نظر نہیں آتے جبکہ رحمت اللعالمینؐ کے دروازے پر لٹکتے ہوئے موٹے بورے کے پیچھے سے کندھوں پر آٹے کے بورے لاد لاد کر خلفائے راشدین عوام کے دروازوں تک جاتے ہوئے شفاف نظر آتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ ’’سیاست‘‘ جیسا کوئی پیچیدہ لفظ مذہب اسلام میں موجود و جائز نہیں ہے۔ یہ غربت سے جاں بلب عوام کے مسائل کو سیدھا سیدھا حل کرنے کے بجائے لفظوں کی جادوگری اور لاروں کی بازی گری میں الجھا کر اپنے مفادات کے تحفظ کا نام ہے لہٰذا سیاست پر پابندی لگائی جائے۔ الیکشنوں پر ضائع ہونے والے اربوں روپوں سے غریبوں کا پیٹ بھرنے کا چارہ کیا جائے۔ ایسی سیاست عبادت ہوگی۔ بہرحال قارئین کرام ہم نے آپکے تمام دکھ درد‘ خواہشات اور خدشات اپنے الفاظ میں ڈھال کر بڑے بڑے کانوں‘ ایوانوں‘ دیوانوں اور گریبانوں تک پہنچا دیئے ہیں۔ آگے آپکے نصیب۔ دعا ہے اللہ آپ کے نصیب اچھے کرے جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے مگر دعا کرنے میں کیا حرج ہے؟دعائوں پر شکر ہے ابھی ٹیکس نہیں لگا‘ غریب اپنے امیر ہونے کیلئے دھڑا دھڑ دعائیں مانگ سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے حکومتوں کی دست برد سے آکسیجن اور دعائیں ابھی بچی ہوئی ہیں۔ عوام ان دونوں نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھائیں۔ فضول سوالات جوابات میں الجھے بغیر چارہ کھانے کے بجائے صرف براہ راست جینے کا چارہ کریں بلکہ ہو سکے تو جیتے جی اپنے پسماندگان کو بھی سوچ کی اسی لائن پر ڈالتے جائیں کیونکہ زیادہ نہیں تو چونسٹھ سال تو ان کی عمر ضرور ہوگی۔ آپ کو اور آپکے پسماندگان کو ہم طول عمر کی دعا دینا چاہتے ہیں مگر مہنگائی کی موجودہ صورتحال میں نام نہاد دعا کی آڑ میں دعا کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہٰذا اپنے لئے یہ کام آپ خود کریں۔ ہم نے آپ کیلئے کالم لکھ کر اپنا کام تمام کر دیا ہے۔ اللہ کرے مہنگائی جان آئی کے ہاتھوں آپ کا کام تمام نہ ہو جائے اور ایک بات طے ہے کہ واقعی پاکستان خواص کیلئے بنا ہے‘ آپ کیلئے ہرگز نہیں بنا لہٰذا لمحہ موجود میں یہ آس و امید پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ آگے کا اللہ مالک ہے۔ اس سے دعا مانگتے رہیے‘وہی سننے والا رحیم و کریم ہے۔
کیا پاکستان صرف خواص کیلئے بنا ہے؟ عوام کا سوال
Jul 22, 2015