پاکستان کے ترکی کے ساتھ ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور حقیقت میں ایک دوسرے کے اچھے بُرے وقت کے احساس نے دونوں ملکوں کے عوام میں بھی باہمی چاہت کا رنگ بھر رکھا ہے۔اس صدی کے آغاز سے ہی پاکستان مصائب کا شکار ہو گیا جبکہ ترکی میں استحکام اور ترقی کی جانب بڑھنے کی نوید پاکستانیوں کیلئے ایک طرح کے رول ماڈل کی صورت اختیار کرتی گئی۔خصوصاً اس فوج کو قابو کرنے کاتذکرہ اکثر کیا جاتا جس نے 1960ء میں بغاوت کی اور 1961ء میں معزدل وزیر اعظم عدنان میندریس کو اسکے وزیرخارجہ اور وزیر خزانہ سمیت پھانسی پر لٹکا دیا۔ پھر 1971ئ، 1980ء اور 1997ء میں بھی حکومت گری کی۔دراصل یہ حالات ترکی میں سکولرازم اور اسلامی نظریات رکھنے والوں کے درمیان کشمکش کی پیداوار تھے۔
اردگان جو کہ بلدیاتی سیاست سے اوپر آیا تھا ایک اعتدال پسند شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے معیشت کی ترقی اور عوام کو اعتماد میں لینے کا عزم اپنایا جس میں اسے نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔یہاں تک کہ آج ترکی قرضوں سے مکمل آزاد ہے اور ہر شہری کو صحت ، تعلیم وغیرہ کی سہولیات مفت مل رہی ہیں ۔جیسے جیسے خوشحالی آتی گئی عوام کا اعتماد حاصل ہوتا گیا۔ جس سے نظریاتی کشیدگی کم اور یکجہتی برھتی گئی۔ ان حالات میں اسکے پرانے ساتھی اور اختلافی نظریہ رکھنے والے فتح اللہ گلن کو پنسلوانیہ امریکہ میں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ اگرچہ اسوقت تک اس کی سوچ رکھنے والے تعلیم ، پولیس، صحافت، مذہبی حلقے، عدلیہ، وکلاء اور سوسائٹی کے دیگر شعبوں میں کافی گہرائی تک جا چکے تھے۔فوج میں انکا اثر و رسوخ مسلسل تطہیر کی وجہ سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔
بین الاقوامی سطح پر ترکی امریکن بلاک کا اہم رکن مانا جاتا رہا۔ نیٹو میں شمولیت کی وجہ سے افغانستان میں بھی فوج بھیجی بلکہ یہ بھی طے تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد بھی انکا وہاں رول رہے گا۔ترکی کی سرحدیں 8ممالک یعنی شام، عراق، ایران، آرمینیا، آزر بائیجان، جارجیا، یونان اور بلغاریہ سے ملتی ہیں جبکہ جنوب میںMediterranean Seaاور شمال میں Black Seaہیں۔لہٰذا اسکی نیٹو میں فعالیّت اور امریکہ سے قربت ایک مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ ان ہمسایوں میں سے تین ملک زیادہ اہم ہیں۔شام، جس کی سرحد 882km ملتی ہے، سب سے سخت خانہ جنگی کا شکار ہے۔ عراق، 331kmکی سرحد کے ساتھ داعش اور اندرونی دہشت گردی کے نرغے میں ہے جبکہ ایران، 500kmسرحد کے ساتھ جنگ میں شام کے پیچھے کھڑا ہے۔پھر جہاں ترکی سمیت ان چاروں ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں وہاں سب کی کچھ کچھ زمین پر کردستان بننے کی تگ و دو جاری ہے۔ترکی سے امریکن ائیر فورس شام کیخلاف حملے کر رہی ہے اور پچھلے دنوں ترکی نے بھی ایک روسی جہاز مار گرایا تھا۔اس پس منظر میں اچانک آدھی رات کو ہمارے میڈیا پر ترکی میں فوجی بغاوت کی خبر نمودار ہوئی۔ بمباری اور گولیوں کی آواز یں آئیں اور تھوڑی ہی دیر بعد ٹینک نظر آئے جنھیں عوام ڈنڈوں سے مار رہے تھے۔اطلاع ملی کہ اردگان جو کہ باغیوں کے قابو نہیں آئے تھے انکی کال پر قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ کئی جگہ پرسو ملین لوگ فوجیوں کو پکڑ کر لا رہے تھے۔ پھر اردگان سامنے آگئے اور صبح تک سب کچھ سنبھال لیا گیا تھا۔
وہاں تو جو ہوا سو ہوا۔ ہمارے ہاں ماحول بڑا دلچسپ تھا۔ کیا تجزیہ کار اور کیا عام آدمی، ہر ایک ترکی کی عوامی فتح کا ’’پانچواں سوار‘‘بنا بیٹھا تھا۔ذرا غور فرمائیں ! ہمارے لوگ ان جلسوں کو کامیاب کرواتے ہیںجہاں رونق میلہ ہو۔ووٹ انھیں دیتے ہیں جن پر ہر طرح کے زیادہ سے زیادہ الزامات ہوں۔حکمرانی اردگان جیسی پسند کرتے ہیں۔ جب اپنے لائے ہوئے حکمرانوں سے کچھ نہیں ملتا توفوج کو پکارتے ہیں۔ فوج نہ آئے تو ’’سَتُو ‘‘پینے کا طعنہ، اور اگر آ جائے تو جمہوریت کے قتل کا الزام۔ ترکی کے اس سانحہ پر عوام کی آگہی بڑھانے یا سوچ کو میچور کرنے کی بجائے ہر چینل پر ایک ہی موضوع زیر بحث تھا کہ اگر کل کو ہماری فوج نواز حکومت کا تختہ الٹ دے تو کیا عوام اسی طرح فوج کے خلاف نکلیں گے؟یعنی وہ چیز جس کا دور دور تک امکان نہیں اس سے عوام کو نفسیاتی طور پر تقسیم کرنے کا عمل جاری تھا۔
بہرحال ترکی میں اگلے ہی دن تک 145 سویلین ، 60پولیس اہلکار، 3وفادار اور 104باغی سولجر، ایک جنرل اور ایک ڈپٹی میئر مارے جاچکے تھے۔بر طرف ہونیوالوںمیں 7899پولیس اہلکاروں سمیت 8777اہلکار، ایک صوبائی 29ٹاؤن گورنرز اور محکمہ خزانہ کے 1500ملازمین شامل تھے۔ 112 جنرلز (بشمول بریگیڈیرز)گرفتار ہوئے جن میں سے 99پر فردجرم عائد کی جا چکی ہے۔ فٖضائیہ کے سابق سربراہ اوز ترک نے گرفتاری کے بعد ماسٹر مائینڈ ہونے کا اعتراف کر لیا۔اب تک 50,000 سرکاری ملازمین معطل ہوکر گرفتار ہو چکے ہیں۔ 1500 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے استعفیٰ طلب اور روسی جہاز گرانے والے دونوں پائلٹس کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔باغیوں کیلئے سزائے موت کا قانون پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے۔اور اپریشن شدت سے جاری ہے۔
اگر مندرجہ بالا اعدادوشمار کا بغور جائزہ لیا جائے تو نہ یہ فوجی بغاوت بنتی ہے اور نہ ہی اسطرح کی فورس سے اردگان کو ہٹایاجا سکتا تھا۔میرے نزدیک اسکا مقصد اردگان کیلئے ایسی صورتحال کا پیدا کیا جانا تھا جس میں الجھ کر خود اسکی اپنی اور ایک مسلمان ریاست کی خود مختاری کا خواب چکنا چور کیا جا سکے۔پچھلے دنوں اردگان امریکہ سے شاکی تھا کہ جس طرح وہ کردوں، داعش اور باغی شامیوں کی حمایت کر رہا تھا اس سے ترکی میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔مگر امریکہ نے نہیں سنی۔کم قیمت پر ایران سے تیل کا معاہدہ، روس سے انکے جہاز گرانے پر معافی مانگنا، اورترک قوم کو مٹھی میں کرلینا ترکوں کیلئے تو اچھا قدم ہو سکتا ہے مگر اتحادیوں کیلئے نہیں ۔ کیونکہ اسکے بعد وہ روس کی طرف بھی جا سکتا تھا۔
حالات بظاہر مکمل کنٹرول میں آچکے ہیں مگر یہ اتنی جلدی ممکن نہیں۔اردگان نے باغیوں کیلئے عبرت ناک سزاؤں کا اعلان کر رکھا ہے۔اب اگر ہر شعبے میں اتنے لوگوں کو سزائیں ملیں تو ترکی میں سالہاسال تک اسکے آفٹر شاک محسوس کئے جائینگے اور اگر عام معافی دے دیتا ہے تو ہر شعبے میں اسکے مخالفین جڑپکڑ جائیں گے۔مزید براں اگر امریکہ فتح اللہ گلن کو سزا کیلئے ترکی کے حوالے کر دیتا ہے تو اردگان حالات پر بالکل قابو نہیں پا سکے گا بلکہ اسکا اپنا انجام بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہر صورت ترکی ایک عرصے تک عدمِ استحکام کا شکاررہے گا۔اردگان کوانتہائی تدبرکیساتھ اپنے لوگوں اور اتحادیوں کو ازسر نو اعتماد میں لینا ہوگا۔یورپی یونین کی ممبر شپ حاصل کر لینا اسکی کامیابی کی طرف ایک واضح قدم ہوگا۔ایک برادر ملک کے اندر اسطرح کے حالات پیدا ہونے پر بے انتہا تشویش ہے مگر ہمیں اپنے مستقبل کیلئے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ معاشرے کے اندر سرائت کر جانیوالے زہر کبھی اور کسی بھی صورت میں رونما ہوسکتے ہیں اور حقوق پانے والے شہریوں کی شمولیت کی بنیاد پر قائم جمہوریت ہی تریاق ہے۔ دوسرا کئی بار کی بغاوت اور اب کئی جنرلز کی گرفتاری کے باوجود ترکی کے کسی حصے سے بھی فورسز پر تنقید نہیں سنائی دی۔ افراد کو سزا دی جاسکتی ہے مگر قومی طاقت کو کمزور کرنا کوتاہ نظری سے خود کشی کے مترادف ہے۔