تعزیرات پاکستان کے باب سولہ میں قتل کی اقسام تفصیل سے بیان کردی گئی ہیں۔دفعہ 300 میں قتل عمد کی تعریف دی گئی ہے۔جبکہ دفعہ 302 میں قتل عمد کی سزائوں کی تفصیل درج ہے۔302 ( اے) کے تحت قتل عمد کی سزاء بطور قصاص سزائے موت ہے۔ جبکہ 302(بی)کے تحت قتل عمد کے ارتکاب پر بطور تعزیر سزائے موت یا مقدمہ کی نوعیت کے مطابق عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے اور 302(سی) کے تحت قتل عمد کی زیادہ سے زیادہ سزا پچیس سال قید اور کم سے کم سزاء دس سال قید ہے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس کلاز کا اطلاق وہاں ہوتا ہے جہاںاسلامی احکامات کے مطابق قصاص کی سزاء کا اطلاق نہ ہوتا ہے۔ مگر اس کلاز میں وضاحت موجود ہے کہ اس شق کا اطلاق غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پر نہیں ہوگا۔یوں قانون میں دی گئی اس صراحت کے بعد کوئی ابہام نہیں رہتا کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے حوالے سے قانون بنانے والوں کی تشویش یا منشاء کیا ہے۔یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ جرم ثابت ہونے پر غیرت کے نام پر ہونے والے قتل میں ملزم کو سزائے موت یا مقدمہ کی نوعیت کے مطابق عمرقید کی سزاء ہی دی جا سکتی ہے۔ اس سے کم سزاء کا کوئی خدشہ باقی نہیں رہتا۔اس کے باوجود غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے حوالے سے جدید قانون سازی کا مطالبہ کر کے ذاتی دوکانداریاں چمکانے کے شوق میں بعض حلقے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس حوالے سے شائید کوئی ٹھوس قانون نہیں اور جدید قانون سازی سے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قتل کا جرم عدالت کی اجازت سے قابل راضی نامہ ہوتا ہے۔ عدالت ہر صورت راضی نامہ منظور کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔عدالت ’’ فساد فی الارض،، سمیت بعض صورتوں میں راضی نامہ نامنظور کر کے ملزم کو پوری سزاء بھی دے سکتی ہے۔ اور جب غیرت کے نام پر قتل کے جرم کو فساد فی الارض کی تعریف میںپہلے ہی شامل کیا جا چکا ہے تو اس سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اس جرم کی حوصلہ شکنی کیلئے جو اقدامات موجود ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تعزیرات پاکستان میں سخت قانون موجود ہے تو غیرت کے نام پر قتل کے ملزمان کے بری ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی ابہام نہیں کہ ایسے مقدمات میں عام طور پر مدعی ،مقدمہ کے چشم دیدگواہ اور ملزم آپس میں انتہائی قریبی عزیز ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گھر کے ایک فرد کوقتل کی صورت میں کھونے کے بعد گھر کے دیگر فرد یا افراد کو ہرگز کھونا نہیں چاہتے۔ گواہ منحرف ہو جاتے ہیں اور اگرگواہ ہی منحرف ہو جائیں تو لا محالہ ملزم کی سزاء یابی کے امکانات نہیں رہتے۔ہاں اگر تفتیش بہتر ہو تو ایسے مقدمات میں سزاء یقینی ہو سکتی ہے۔ملزم کا باپ اگر مدعی ہو بھائی اور ماں چشم دید گواہ بن جائیں تو تفتیشی کو مقدمے کی قسمت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا اسے علم ہوتا ہے کہ یہ سب بیٹھ جائیں گے اور ملزم چھوٹ جائے گا۔ پھر بھی مزید شہادتیں اکٹھی کئے بغیر اس طرح کے گواہوں پر مبنی مقدمے کا چالان سماعت کیلئے عدالت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے مقدمات کے ملزمان شروع میں اقبالی بیان دینے پر آمادہ ہوتے ہیں اگر تفتیشی افسر بر وقت ملزم کا اقبالی بیان مجسٹریٹ کے روبرو قلمبند کروالے اور ساتھ کچھ دیگر شہادت اکٹھی کرنے کی زحمت کر لے تو غیرت کے نام پر قتل جیسے گھنائونے مقدمات میں سزاء ہو سکتی ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ تفتیش کو بہتر بنایا جائے اور تفتیش کے دوران مکھی پر مکھی مارنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کر کے اس میں جدت لائی جائے۔ دیانت دار اور فرض شناس تفتیشی کسی صورت میں تفتیش میں کمزوریاں نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے تئیں پوری کوشش کر کے ٹھوس شواہد کیساتھ چالان مرتب کرتے ہیں اور ایسی صورت میں مجرم کے بچنے کے راستے بھی مسدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ تعزیرات پاکستان میں قتل عمد کے علاوہ قتل کی جو دیگر اقسام ہیں ان میں قتل شبیہ عمد، قتل خطاء اور قتل بسبب زیر نظر کالم کے موضوع کے پیش نظر اہم ہیں۔ قتل شبیہ عمد کی سزاء دیت کی رقم ہے جسکے ساتھ پچیس سال تک قید کی سزاء بطور تعزیر بھی دی جاسکتی ہے۔ قتل خطاء کی سزاء بھی دیت ہی ہے ہاں اگر یہ قتل لاپرواہی سے کی جانیوالی ڈرایئونگ کے علاوہ ایسے کسی دیگر فعل سے ہو تو دیت کے ساتھ بطور تعزیر پانچ سال تک قید کی سزاء بھی دی جاسکتی ہے۔ اور اگر قتل تیزرفتار اور لاپرواہ ڈرائیونگ کے نتیجے میں ہو تو دیت کے ساتھ دس سال تک قید کی سزاء بھی ہو سکتی ہے جبکہ قتل بسبب میں صرف دیت کی سزاء ہے۔ دیت کی رقم کا تعین وفاقی حکومت نے ہر نئے مالی سال کے آغاز میں کرنا ہو تا ہے۔ موازنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قتل کی دیگر اقسام کے مقابلے میں قتل عمد کی سزاء ہر صورت زیادہ ہے اور قتل عمد اگر غیرت کے نام پر ہو تو اسکی سزا ء تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302(اے) یا 302(بی)کے تحت دی جا سکتی جو کسی صورت سزائے موت یا عمر قید سے کم نہیں۔ لہٰذا جدید قانون سازی کے ذریعے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کر کے غیرت کے نام پر ہونیوالے قتل کی خصوصی تعریف کوئی ایشوء نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر سزاء کو یقینی بنانا اور جرم کی بیخ کنی مقصود ہے تو نہ صرف سنگین مقدمات کو نکمی تفتیش سے بچایا جائے بلکہ عدالتی سزائوں پر فی الفور عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔