سینٹ: مدینہ منورہ میں خودکش حملے کیخلاف مذمتی قرارداد‘ 4 بل منظور‘ فوج 50 تجارتی ادارے چلا رہی ہے: خواجہ آصف

Jul 22, 2016

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ اے پی پی) سینٹ میں مالیاتی اداروں کی رقوم وصولی آرڈیننس 2001ء میں مزید ترمیم کے بل 2016 سمیت 4 بل منظور کر لئے گئے۔ سینٹ نے وزارت خزانہ کے ترمیمی بل کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ چیئرمین سینٹ نے نیشنل کمانڈ اینڈ اتھارٹی ترمیمی بل کا معاملہ تاخیر سے سینٹ میں لانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی ترمیمی آرڈیننس 13 مارچ 2016ء کو نافذ کیا گیا۔ آرڈیننس 14 جون کو قومی اسمبلی اور 15 کو سینٹ میں پیش کیا گیا۔ رضا ربانی نے کہا کہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی ترمیمی آرڈیننس کو تاخیر سے لانے کا معاملہ اہم ہے۔ ایوان نے کریڈٹ بیوروز ترمیمی بل، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان ترمیمی بل، اسلام آباد دارالخلافہ مقامی حکومتیں بل کی بھی منظوری دیدی۔ اجلاس میں مدینہ منورہ میں حملے کیخلاف متفقہ مذمتی قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔ قرارداد جے یو آئی (ف) کے حافظ حمداللہ نے پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ مدینہ منورہ دنیا کا مقدس ترین شہر ہے۔ مدینہ منورہ کی بنیاد آخری پیغمبر رسول اکرمﷺ نے رکھی، اسلام دشمن عناصر نے مذموم کارروائی کر کے مسلم امہ کے دل چھلنی کر دیئے۔ عبادت گزاروں پر حملہ کرنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ عسکریت پسندی کی لعنت کے خاتمے کیلئے مل کر حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ وقفہ سوالات کے دوران وزارت صنعت و پیداوار نے تحریری جواب میں بتایا کہ 2015ء میں 4 لاکھ 47 ہزار افراد ملازمت کیلئے بیرون ملک گئے۔ سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب گئے۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی تعداد 3 لاکھ ہے۔ اسلام آباد میں 19 بلڈ بنک قائم ہیں۔ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان نے کہا کہ معیار پر پورا نہ اترنے والے 6 بلڈ بنک بند کر دیئے گئے ہیں۔ اعظم سواتی نے کہا کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کیلئے ایک سال کی سزا ناکافی ہے۔ سزا اور جرمانے میں اضافے کیلئے قانون لا رہا ہوں، حکومت ساتھ دے۔ ریاض پیرزادہ نے کہا کہ 10 سال میں مشترکہ مفادات کونسل کے 118 اجلاس ہوئے۔ ان اجلاسوں میں این ایف سی ایوارڈ کو زیربحث نہیں لایا گیا۔ سینٹ میں وزارتِ دفاع نے تحریری جواب میں بتایا ہے کہ پاکستان کی فوج کے زیرانتظام 50 کاروباری کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریری جواب میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فوجی فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام کاروباری اداروں کی تفصیلات فراہم کیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ دفاع نے بتایا کہ ان کاروباری اداروں میں رہائشی سکیمیں، فارمز، کھاد، چینی اور سیمنٹ بنانے کے کارخانے، ریسٹورنٹ، بینک، انشورنس کمپنی، کپڑے بنانے کے کارخانے، بجلی گھر، گوشت پراسیسنگ یونٹ اور سکیورٹی فراہم کرنے کی کمپنیاں شامل ہیں۔ توجہ دلائو نوٹس پر وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں مگر 18ویں ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبوں کو چلا گیا ہے اور اس حوالے سے قانون سازی بھی صوبوں کی ذمہ داری ہے، عالمی طور پر جو معیار رکھا گیا ہے، اس کی پیروی کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں ملازمتوں میں چھوٹے صوبوں کی موثر نمائندگی اور این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ نہ ہونے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن نے موقف اختیار کیا کہ موجودہ حکومت کوٹہ سسٹم کو سبوتاژ کر رہی ہے، کوٹہ کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں، ایم کیو ایم کے طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ عوام سے ان کا حق نہ چھینا جائے۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے ایوان کو یقین دلایا کہ لواری ٹنل کی تعمیر جون 2017 میں مکمل کر لی جائے گی، ماضی کی حکومتوں نے اس پر کام نہیں کیا، 2005 میں یہ منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس پر اعظم سواتی نے انکشاف کیا کہ یہ منصوبہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جو ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ این ایچ اے طورخم سے کابل تک سڑک بنانے میں مصروف ہے اور اگر حویلیاں تا مانسہرہ روڈ کی تعمیر میں کوئی غفلت برتی گئی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ این ایچ اے میں اوپر کی پوسٹیں کوٹہ سسٹم کے تحت بھرتی کی جاتی ہے بلوچستان کا کوٹہ 3.5 فیصد تھا مگر موجودہ حکومت نے بلوچستان کا کوٹہ 6 فیصد کر دیا ہے۔ این ایچ میں کچھ افسر مستقل طور پر تعینات ہیں جب کہ کچھ منصوبہ وار بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ ایوان میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف تحریک التوا پر بحث ہوئی۔ تحریک التوا طاہر مشہدی، سراج الحق، اعظم سواتی، چودھری تنویر، مشاہد حسین اور شیری رحمان نے پیش کی۔ سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ کشمیر کے مسئلے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، کل بھوشن کی گرفتاری نے ثابت کیا کہ پاکستان میں تخریب کاری میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ مسئلہ کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے، بھارت کے بھی مفاد میں ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو، علی گیلانی کے پیش کردہ چار نکاتی فارمولے کو سراہتا ہوں۔ سسی پلیجو نے کہا کہ حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حکومت مسئلہ کشمیر موثر طریقے سے اقوام متحدہ سمیت متعلقہ فورمز پر نہ اٹھا سکی۔ اعظم سواتی نے کہا کہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر بہتر لابنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کالعدم تنظیموں کو کشمیر کی جدوجہد سے دور رکھنا چاہئے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ افغان پالیسی والی غلطیاں ہمیں دہرانا نہیں چاہئیں۔ کشمیر کے مسئلے کو انسانی حقوق کمشن کے سامنے اٹھانا چاہئے۔ چودھری تنویر نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر جامع پالیسی بنائی جائے۔ امریکہ میں حملوں کے بعد جہاد کا لفظ دہشت گردی کی وجہ سے بدنام ہوا۔ شیری رحمان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ اب وزیر خارجہ کا تعین کر بھی دیا جائے تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔

مزیدخبریں