اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم پہلے ہی وزیراعظم کی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں، گارنٹی دیتے ہیں نااہلی کا معاملہ زیرغور لائیں گے، فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، آئین اور قانون سے باہر نہیں جائیں گے، آئین کے آرٹیکلز ہماری نظروں کے سامنے ہیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس سے کسی کے بنیادی آئینی حقوق کی تلفی ہو۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث، وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین، حسن اور صاحبزادی مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل مکمل کئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے جواب الجواب پیش کیا۔ شریف خاندان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ گزشتہ روز کی سماعت میں نیلسن اور نیسکول کے ٹرسٹ ڈیڈ پربات ہوئی تھی، عدالت کے ریمارکس تھے کہ بادی النظر میں یہ جعلسازی کا کیس ہے اور اسی حوالے سے میں نے کہا تھا اس کی وضاحت ہوگی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اکرم شیخ نے کہا ہے کہ غلطی سے یہ صفحات لگ گئے تھے، یہ صرف ایک کلےریکل غلطی تھی اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی، کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی، ماہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں بہت سے سولیسٹر ہفتہ بلکہ اتوار کو بھی کھلتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز سے پوچھا گیا کہ چھٹی کے روز ملاقات ہوسکتی ہے، حسین نواز نے کہا تھا کہ چھٹی کے روز اپائنٹمنٹ نہیں ہوسکتی۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کاوالیم 10 بھی منگوا لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دسویں جلد میں جے آئی ٹی کے خطوط کی تفصیل ہوگی اور دسویں جلد سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی جس کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ کا سربمہر والیم 10 عدالت میں پیش کردیا گیا، والیم 10 کی سیل عدالت میں کھول دی گئی اور عدالت نے والیم 10 کا جائزہ بھی لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا خواجہ صاحب یہ والیم آپکی درخواست پر کھولا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے والیم 10کھولنے کی استدعا کی تھی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا آج سلمان اکرم راجہ نے اچھی تیاری کی۔ عدالت نے خواجہ حارث کو والیم 10 کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دےدی تاہم عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ ابھی والیم 10 کسی کو نہیں دکھائیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ کیس مزید تحقیقات کا ہے، خطوط کو بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے لیکن تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا گزشتہ روز جسٹس عظمت سعید شیخ نے پوچھا تھا کہ کیا آج قطری پیش ہونے کو تیار ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کو ویڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی۔ انہوں نے اپنے دلائل میں بتایا کہ سال 2004 تک حسین اور حسن کو سرمایہ ان کے دادا دیتے رہے، اگر بیٹا اثاثے ثابت نہ کر سکے تو ذمہ داری والدین پر نہیں آ سکتی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہو تو کیا ہوگا۔ پبلک آفس ہولڈر نے اسمبلی میں کہا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے، جس کے بعد وزیراعظم نے کچھ مشکوک دستاویزات سپیکر کو دیں، ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہےں ےہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے کا لفظ استعمال کرکے وزیراعظم نے خود کو خاندان سے الگ نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کیا تھا۔ خطاب میں کہا تھا بچوں کے کاروبار کے تمام ثبوت موجود ہیں اور ہم ایک سال سے ان ثبوتوں کا انتظار کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کی کمپنیوں کا بینیفیشل مالک ہونا کیپٹن (ر) صفدر کے گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوتا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ گوشواروں میں ملکیت کا ذکر نہیں تو عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو ہو گا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو کرنے کےلئے باقاعدہ قانونی عمل درکار ہو گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ اپنے جواب میں عدالتی تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ عدالت میں دو جواب داخل کرائے ہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا قانون کے دائرے میں رہ کر لہروں کے خلاف بھی تیرنا ہو تو تیر لیں گے۔ سماعت کے دوران طارق حسن کی جانب سے اسحاق ڈار کا 34 سالہ ریکارڈ سربمہر پیش کیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ ڈبہ اب سارا دن ٹی وی کی زینت بنے گا جس پر طارق حسن نے کہا کہ سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کیے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ بھی شواہد کے ڈبے دے کر جے آئی ٹی کی پیروی کر رہے ہیں جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی نے اثاثوں میں اضافے کا کہا اسحاق ڈار اس کا جواب نہ دے سکے، اس سے ہو سکتا ہے اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں آپ شامل تھے، حدیبیہ پیپر ملز کیس کے خارج ہونے کو تسلیم کر لیں تو بھی اسحاق ڈار کے خلاف کافی مواد ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا آج اسحاق ڈار کا ٹیکس ریکارڈ موجود ہے جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنے طورپر مکمل بد نیتی ظاہر کی، تین ذرائع سے یہ ریکارڈ جمع کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اثاثے پانچ سال میں 9 ملین سے بڑھ کر 835 ملین ہوگئے، بتائیں کہ شیخ النہیان نے کن شرائط پر اسحاق ڈار سے معاہدہ کیا جس پر طارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار صرف سیاستدان نہیں پروفیشنل اکاو¿نٹنٹ بھی ہیں، اگر پاکستان میں دو لاکھ کمائیں اور باہر جا کر کمائی دس گنا بڑھ جائے تو کیا یہ غلط ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ صرف دو لاکھ سالانہ کماتے ہیں تو پھر پیشہ چھوڑ دیں جس پر طارق حسن نے کہا کہ سیاست میں آنے کے بعد کئی بار اسحاق ڈار کے اکاو¿نٹس کی پڑتال کی گئی، آج تک اسحاق ڈار کے خلاف کچھ نہیں نکلا۔ طارق حسن نے اسحاق ڈار کے ٹیکس جمع کرانے پر طویل دلائل شروع کیے تو جسٹس اعجاز افضل نے روکتے ہوئے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ سماعت ہمیشہ ہی چلتی رہے، ڈار کے وکیل نے کہاکہ بلاوجہ کے احتساب میں گھسیٹنا قبول نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا اگر یہ ڈرامائی کہانی ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ کہانی ڈرامے کی طرح ختم ہو، جو تحریری جواب آپ نے دیا ہے یقین رکھیں اس کا جائزہ لیا جائے گا، تحریری جواب سے ہٹ کر دلائل ہیں تو دیں ہم سنیں گے۔ طارق حسن ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی میں بطور گواہ گیا تھا لیکن یہاں لگتا ہے ملزم ہوں۔ سمجھ نہیں آتا کہ اسحاق ڈار نے کس بات کا استحقاق مانگا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا تحریری جواب دیا، تسلی رکھیں ہر وکیل کے ہر جواب کی ہر سطر پڑھیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اسحاق ڈار کا بیٹا بیرون ملک کمپنی سے باپ کو پیسے بھیجتا رہا، اسحاق ڈار کا اپنے بیٹے سے پیسے لینا ٹیکس بچانے کےلئے تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کیا آپ ماضی کی طرح شریف خاندان کے خلاف دوبارہ وعدہ معاف گواہ بننا چاہتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 800 ملین کا اضافہ ہوا، اسحاق ڈار نے بیٹے کو کمپنی ہل میٹل کے فنڈز دئیے، بیٹے نے وہی رقم باپ کو تحفے میں بھیج دی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا مسٹر طارق حسن کم از کم آپ تو اپنے موکل سے انصاف کر لیں، آپ انصاف کرلیں اور ہمیں بھی اسحاق ڈار سے انصاف کرنے دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہ کہہ دیں کہ آپ کے دلائل سن کر اطمینان ہوا، دونوں فریقین سن لیں اس کیس میں ہم قانون سے باہر نہیں جائیں گے، سب کے بنیادی حقوق کا احساس ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، ہمیں کچھ نہ کہیں، کیس ختم ہو جائے گا، آپ چلے جائیں گے مگر ہمارا کام جاری رہے گا، بہت زیادہ تفصیل دینا بھی کیس کو برباد کر دیتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جس چیز کی آئین اور قانون نے اجازت نہیں دی وہ نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب میں کہا کہ ثابت ہوگیا وزیراعظم صادق اور امین نہیں، ایف زیڈ ای کمپنی کو وزیراعظم نے ظاہر نہیں کیا، ایف زیڈ ای کمپنی کا چیئرمین ہونا اور تنخواہ وصولی ظاہر نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے تنخواہ نہیں لی جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا تنخواہ لینے اور نہ لینے کے اثرات علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اثاثے ظاہر نہ کیے گئے تو بددیانتی کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہمارا دائرہ اختیار ہو گا یا الیکشن کمشن کا ہوگا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ تقریر میں وزیر اعظم نے گلف سٹیل مل 33 ملین درہم مےں فروخت کرنے کا کہا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا بی سی سی آئی رقم شامل کرنے پر 33 ملین کی ہی بنتی ہے۔ نعیم بخاری نے کہا گلف سٹیل مل کی فروخت بارے بھی غلط بیانی کی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا کسی پبلک آفس ہولڈر کے ملازمت کرنے پر پابندی ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا جی بالکل ہے، پبلک آفس ہولڈر کی ملازمت مفادات کا ٹکرا¶ ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا امریکہ سے بھی وزیراعظم کو شیخ سعید نامی شخص سے 10 ملین ملے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا آئین میں پابندی ججز کی دوسری ملازمت کےلئے ہے، کسی دوسرے آفس ہولڈر کے لیے نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی کسی دوسری ملازمت پر پابندی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں وزیر اعظم کی کسی دوسری ملازمت بارے کچھ نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے جو چیزیں درخواست میں نہیں کیا ہمیں ان پر جانا چاہئے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا نئی چیزیں کیس میں شامل کر کے فریقین کو سرپرائز دیا جا سکتاہے، یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بار ثبوت شریف خاندان پر ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری سپریڈ شیٹ تو نہ ادھر کی ہے نہ ادھر کی جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ بہترین وضاحت یہ ہوتی کہ فلیٹ میاں شریف نے خریدے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اگر ہم مان لیں کہ فلیٹس کی مالک مریم ہیں اور وہ نواز شریف کی زیر کفالت ہیں تو اثاثے ظاہر کرنے پر ہی وزیر اعظم کی نااہلی بارے فیصلہ دیا جا سکتا ہے، اگر زیر کفالت ثابت نہ ہو تو صرف مریم کا فلیٹ کا مالک ہونا کافی نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جے آئی ٹی بنی تو سب نے کہا کہ جے آئی ٹی کا کام آزادانہ ہو گا، جے آئی ٹی نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا، اگر ہم نے ٹرائل سے متعلق فیصلہ دیا تو یہ فیئر ٹرائل ہو گا۔ اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جن حالات میں کام کیا قابل تحسین ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا مریم نواز کو بینیفشل مالک تسلیم کر بھی لیں تو زیر کفالت کا معاملہ آئے گا۔ درخواست میں آپ نے مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کا کہا تھا، مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے جوابی دلائل میں کہا کہ عظیم ججز کے سامنے پیش ہوا ہوں، جے آئی ٹی کے سپر سکس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان رہنے کے قابل ملک ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مٹھائیاں بانٹی گئیں، لگتا ہے میری طرح ان کی انگریزی بھی کمزور ہے، میں نمازوں میں دعا مانگتا ہوں یا اللہ شیخ عظمت سعید بیمار نہ ہو جائیں۔ شیخ رشید نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف پر منی لا نڈرنگ، کسٹم ایکٹ، فارن ایکسچینج ایکٹ اور امپورٹ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ لگایا جائے۔ جسٹس عظمت شیخ نے استفسار کیا کہ شیخ رشید صاحب آپ کہیں موٹر وہیکل ایکٹ نہ لگا دیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے جواب میں کہا جے آئی ٹی کی سفارشات کے بعد تمام شکوک و شبہات دور ہو چکے ہیں۔ دو ججز پہلے ہی نااہلی کا فیصلہ دے چکے ہیں، عدالت نے نواز شریف کی نا اہلی کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت کا حکم تھا، نہ واپس لیا نہ لیں گے، ہم پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گارنٹی دیتے ہیں نااہلی کا معاملہ زیرغور لائیں گے۔ کسی کے بنیادی حقوق نہیں روندیں گے۔ بعد ازاں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ ذرائع کے مطابق عدالت ایک ہفتے کے اندر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دے گی۔
پانامہ کیس : فیصلہ محفوظ: گارنٹی دیتے ہیں‘ وزیراعظم کی نااہلی پر غور کرینگے : سپریم کورٹ‘ حدیبیہ ملز سے ہٹ کر بھی اسحاق ڈار کیخلاف کافی مواد ہے : عدالت
Jul 22, 2017