سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی انتخابی مہم کے سلسلے میںجلسے کے اندر پہنچے تو خوش ہوئے کہ لوگ بہت تھے۔ وہاں مشتعل افراد نے سنگباری شروع کر دی اور چور چور کے نعرے لگائے۔
ایک نوجوان کی شناخت وسیم عباسی کے نام سے ہوئی۔ کیا یہ آدمی خاقان عباسی کا رشتہ دار ہے۔ انہوں نے کم از کم اپنے قبیلے والوں کا تو کچھ کام کیا ہوتا۔
وہ بے چارہ زخمی ہوگیا۔ اس کا نشانہ ٹھیک نہ ہوگا۔ شکر ہے کہ پولس اور کچھ اہلکار شاہد خاقان کو بحفاظت بچا کے لے گئے۔
خبر ہے کہ بلاول بھٹو کے قافلے پر بھی مشتعل افراد نے پتھراﺅ کیا۔ لیاری کراچی یعنی بلاول کے اپنے صوبے کے سب سے بڑے شہر میں بھی ان کا زبردست پتھراﺅ ‘ سنگباری سے استقبال ہوا۔ یہ استقبال جدید اور زبردست مثال ہے۔ عمران خان بھی محفوظ نہ رہے۔ اگرچہ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں۔ ایسے واقعات بلکہ حادثات کی وجہ سے لیڈرز اب انتخابی مہم میں تیار ہو کر جاتے ہیں۔ اب ان کیلئے کارکنوں کے علاوہ کمانڈوز کی بھی ضرورت ہے۔
ایک دوست کہنے لگا کہ بلاول کی بجائے ان کے والد محترم (سابق صدر) زرداری کیلئے ایسا اہتمام ہونا چاہئے تھا۔ وہ وزیراعظم کے بڑے سخت امیدوار ہیں۔ زرداری صاحب نے ہر معاملے میں ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے کامیاب اوراصل تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان کیلئے صدر پاکستان بننا کوئی کم بات نہیں۔ اب و زیراعظم پاکستان بن جانا کیوں بڑی بات ہوگی مگر وہ خود کہتے ہیں کہ بلاول وزیراعظم ہوگا۔ اس کیلئے یہ نعرے انتخابی مہم کے دوران بھی لگتے ہیں۔ اب تو وزیراعظم بلاول‘ وزیراعظم عمران خان‘ وزیراعظم شہبازشریف عام نعرے ہو گئے ہیں۔ عمران خان سے مخالف سیاستدان ڈرے ہوئے ہیں۔
لکی مروت سے خبر آئی کہ عمران خان کے جلسے میں پتھراﺅ نہیں ہوا بلکہ ارکان پی ٹی آئی نے خود جلسے میں گھس کے توڑپھوڑ کی ہے۔ پرویز خٹک نے الیکشن کمشن کو شکایت بھی کی ہے ۔ اب سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے کے مشورے دینے شروع کر دیئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں خاص طورپر مغربی ملکوں میں اس طرح نہیں ہوتا۔ میں نہیں مانتا کسی دن کنفرم کرنے کیلئے میں خود بلکہ خودبخود جاﺅں گا۔ حبیب جالب یادآتا ہے۔ ان کی اس نظم کو اب سیاستدانوں نے انتخابی تقریروں میں پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ برادر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اشتعال پھیلانے والی تقریروں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بات اشتعال دلانے والے لہجے میں کی ہے‘ خواجہ صاحب اچھے مقرر ہیں ۔ ان کے بھائی بھی ہمارے دوست ہیں وہ شریف آدمی ہیں۔
ایک جملہ ہمارے لئے تکلیف دہ ہے ”ہمیں پاکستان بچانا ہے“ خدانخواستہ پاکستان اس طرح کے کسی خطرے میں نہیں ہے۔ اب کوئی بھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پاکستان بنانے کی ضرورت ہے بچانے کی نہیں ۔
عام طور پر ہمارے اکثر لوگ فلموں میں بھی ہیرو سے زیادہ ولن کو پسند کرتے ہیں۔ سلطان راہی نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے۔ شاید! گالیوں کو بڑھکوں کا متبادل سمجھا جانے لگا ہے۔
سارے سیاستدان دوسرے سیاستدانوں کو کرپٹ اور چور کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سب کرپٹ اور چور ہیں۔ انہی سیاستدانوں میں سے کوئی وزیراعظم بنتا ہے کوئی وزیراعلیٰ اور کوئی وزیر شذیر بنتے ہیں اور پھر ساری عمر سابق وزیر کہلاتے ہیں۔
اب انہیں کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ورنہ انتخابی مہم بھی محلات میں بیٹھ کرچلانا پڑے گی۔ کبھی تو ایسے بھی ہوتا کہ نمائشی معاملات سے نجات ملتی۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پھول بے شک نہ ہوتے۔ ان کے دلوں میں اپنے لیڈر کے لئے پھول ہوتے ۔ ہمارا سارا ملک محبت اور عزت کی خوشبو سے بھر جاتا ۔ لوگ تو ووٹ کو عزت دینے کے لئے تیار ہیں مگر لیڈرز ووٹر کو بھی عزت دیں۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب ہے کہ سیاستدانوں کو عزت دو ۔ مگر ووٹرز کو عزت دینے کا نعرہ کیوں نہیں لگایا جاتا۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ سب کی کچھ نہ کچھ عزت تو ہے مگر سیاستدان کی عزت نہیں ہے۔ سیاستدان کے لئے کیایہ باعث عزت نہیں کہ ووٹرز نے انہیں وزیراعظم بنادیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کبھی سوچا تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے ۔ وہ تو خود کہتے تھے کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں حالانکہ وہ وزیراعظم تھے ۔
٭٭٭٭
بڑے بڑے شہروں سے دور بہت اچھے شعر کہنے والے لوگ رہتے ہیں میں سمجھتا ہوں انہیں یادرکھنا بڑا ضروری ہے۔ میرے قبیلے کی ایک خاتون شاعر ثوبیہ خان شکر گڑھ نارووال میں رہتی ہیں ۔
اپنی مرضی سے پھول بن جائے
ہر کلی کو کہاں اجازت ہے
وہ مری دھڑکوں کا مالک ہے
میری ہر سانس اک امانت ہے
انتخابی مہم میں سیاستدانوں پر ووٹرز کا پتھراﺅ
Jul 22, 2018