سینٹ: حسن عسکری استعفیٰ دیں، مسلم لیگ ن: سیاسی لیجنڈا کیلئے احتساب کے اداروں کا استعمال ہو رہا ہے: پی پی

اسلام آباد(خصوصی نمائندہ) سینٹ میں مسلم لیگ (ن) نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب سے مستعفی ہونے ، چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب کو ایوان میں طلب کرنے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری نے پیش گوئی کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نشستیں کم ہوجائیں گی اور پی ٹی آئی کی بڑھ جائیں گی، وہ کون ہوتے ہیں یہ کون کہنے والے مسلم لیگ (ن) کی نشستیں کم ہوجائیں گی، انکا یہ منصب نہیں کہ و ہ انتخابی نتائج کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے پھریںاگر انہوں نے پیشین گوئیاں کرنی ہیں تو انہیں مستعفی ہو جا نا چاہئے۔ ان خیالا ت کا اظہار امن و امان اور سیاسی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید، راجہ ظفرالحق اور اسد جونیجو نے کیا۔ پرویز رشید نے کہا کہ انتخابات میں ایک پارٹی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے کہ گمان یہ ہوتا ہے کہ کسی کو جتوانے اور کسی کو ہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انجم عقیل کو نیب کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوا ہے جبکہ حنیف عباسی کو بھی عدالت طلب کیا گیا ہے۔ حنیف عباسی کی کامیابی یقینی اور شیخ رشید کی شکست یقینی ہے۔ ایک امیدوار کو اپنی انتخابی مہم چلانے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اورچیئرمین نیب کو ایوان میں طلب کیا جائے اور وہ جواب دیں کہ کسی کے ساتھ لاڈلوں اور کسی سے سوتیلوں والا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ نیب نے عمران خان کو استثنیٰ دیا ہے۔ دہشت گردی کی عدالتوں نے عمران خان کو استثنیٰ دیا۔ یہ استثنیٰ حنیف عباسی کو کیوں نہیں دیا جا رہا۔ پرویز رشید نے کہا دہشت گردوں کو پارلیمنٹرینز اور پارلیمنٹرینز کو دہشت گرد بنایا جا رہا ہے اگر ہم کل کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جائیں تو ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو دہشت گردوں کو پارلیمنٹ میں بٹھانا چاہتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ پنجاب میں نگران حکومت کا ایسا سیٹ اَپ لایا گیاکہ جن کے طرز عمل سے لگ رہا ہے کہ وہ فریقِ اوّل ہیں اور خاص قسم کا رزلٹ لانے کیلئے ان کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ نوازشریف کے استقبال کیلئے جانے والوں پر کریک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا وہ فیصلہ خود کیا یا کسی کے کہنے پر کیا گیا یہ الگ بات ہے۔ لوگوں کے دروازے توڑ کر انہیں گرفتار کر کے خوف و ہراس کی فضا پیدا کی گئی۔ اس دن جگہ جگہ ناکے لگے تھے گاڑیاں توڑ پھوڑ کا شکار رہیں۔ ٹائر پنکچر کئے گئے ،کہا گیا کہ اوپر سے آرڈر ہے۔ اس کے باوجود لاکھوں لوگ وہاں موجود تھے۔ میں نے مقدمے میں اپنا نام دیکھا تو دوسروں کے غم بھول گیا۔ میں نے اس سے پہلے بھی مقدمات کا سامنا کیا ہے لیکن یہ طریقہ کار نہیں دیکھا۔ نگران حکومت غیر جانبدار نہیںہیں ان میں عقل کی بھی کمی ہے، و ہ خاص قسم کے نتائج چاہتے ہیں۔ رضا ربانی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت مکمل طور پر آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے، ہارون بلور شہید ہوئے اور مستونگ میں تاریخ کا ہولناک واقعہ پیش آیا، شیخ آفتاب کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی، اکرم درانی کے جلسے پر حملہ ہوا، شاہد خاقان عباسی کے قافلے پرحملہ ہوا، بلاول بھٹو کو بھی جنوبی پنجاب میں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ میں سوالات اٹھا رہا ہوں اورچاہتا ہوں کہ الیکشن کمشن اس کا جواب دے، کیا یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمشن نے بنک ملازمین کوپولنگ اسٹاف میں شامل کیا ہے؟ اگر یہ درست ہے تو کیا الیکشن کمشن نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی؟ اس وقت 250 قومی اسمبلی کے امیدوارکالعدم تنظیموں سے ہیں، کیا الیکشن کمشن نے کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کی تفصیلات لیں؟ سیاسی ایجنڈا چلانے کیلئے احتساب کے ادارے استعمال ہورہے ہیں، دو بڑی سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اس سے صاف شفاف الیکشن کی فضا کہاں جا رہی ہے؟ الیکشن کمشن خاموش ہے اور اس کی یہ خاموشی مجرمانہ ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ الیکشن کی ساکھ پاکستان کی ساکھ کیلئے بہت اہم ہے، ملک اور الیکشن ایک دوراہے پر آکر کھڑے ہوگئے ہیں، ہمارے امیدوار شوکت بسرا آخری لمحات میں آزاد حیثیت سے کھڑے ہوگئے۔ مسلح تنظمیں جب مرکزی دھارے میں ہوں گی تو اس کے خلاف پورے سینٹ کا مشترکہ موقف ہے، آج پاکستان میں مصنوعی تفریق بنائی جارہی ہے، کالعدم تنظیموں کے نمائندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے پر وزیرداخلہ پنجاب کو مستعفی ہونا چاہئے۔ ہم نیشنل ایکشن پلان کا کیسے دفاع کریں گے اگر کالعدم تنظیموں کے پانچ نمائندے بھی اس ایوان میں بیٹھ گئے؟ ہم کس کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا چاہ رہے ہیں؟ اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سینیٹر اے رحمن ملک نے انتخابات کی سیکیورٹی اور سیاسی رہنماوں کو لاحق سیکیورٹی خطرات سے متعلق کمیٹی کی تفصیلی رپورٹ پیش کردی اور بتایا کہ انتخابات کے دوران 55 سیاسی شخصیات کو سیکیورٹی خطرات ہیں‘ داعش‘ تحریک طالبان پاکستان اورجماعت الاحرار نے پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کرلیا ہے‘ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دن نتائج کی فول پروف منتقلی کیلئے جامع اقدامات کئے ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے نگران وزیر اطلاعات کی تقریر کے دوران واک آئوٹ کر دیا جبکہ چیئرمین سینیٹ نے نگران وزیر اطلاعات کی تقریر کے دوران کھڑے ہو کر بولنے پر میاں رضا ربانی کو جھڑک دیا۔ اجلاس کے دوران میاں رضا ربانی اور سینیٹر میاں عتیق شیخ کے درمیان تلخ جملوں کا بھی تبادلہ ہوا۔ دوسری جانب نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کالعدم تنظیموں میں سے کوئی الیکشن لڑے گا تو اس کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے پر 100 فیصد اثر پڑے گا،کالعدم تنظیموں کو الیکشن سے فوراً روکا جائے،نوازاور مریم کو سہالہ ریسٹ ہائوس منتقل کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ الیکشن کمشن کو کالعدم تنظیموں اور ان سے وابستہ افراد کو الیکشن لڑنے سے فوراً روک دینا چاہئے۔ نگراں حکومت کیلئے کوئی لاڈلہ نہیں سب برابر ہیں۔ چندہ اکٹھا کرکے ڈیم نہیں بنایا جا سکتا۔ سید علی ظفر نے سوالوں کے جواب دیتے کہا ہے کہ پولنگ سٹیشنز میں تعینات فوجیوں کے انچارج افسر کو مجسٹریسی اختیارات حاصل ہونگے، پولنگ سٹیشن پر تعینات فوجیوں کے پاس مجسٹریسی اختیار نہیں ہو گا۔ سید علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے کہا کہ 25 جولائی کو الیکشن ہونے ہیں، جتنے امیدوار الیکشن لڑنے میں مصروف ہیں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آنے والی منتخب حکومت کو چیلنجز کا سامنا کرنا ہے، ووٹرز کو سوچنا ہو گا کہ اگلے 5 سال میں پارٹی ان چینلجز کا حل ڈھونڈ سکے گی؟ جمہوریت کیلئے بھی ضروری ہے کہ صاف و شفاف الیکشن ہوں، حکومت چلانا آسان کام نہیں روز ہر وزارت میں 70، 80 مسائل سامنے ہوتے ہیں آئی ایم ایف کے پاس ہم نہیں جا رہے نہ ہم جا سکتے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کریں گے تو لانگ ٹرم ہو گا۔ نگران کابینہ کا کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکائو نہیں، الیکشن کمشن کا ہر فیصلہ تسلیم کر رہے ہیں، جادو کی چھڑی نہیں کہ انفراسٹرکچر کھڑا ہو جائے۔ ہم بلیک لسٹ افورڈ نہیں کر سکتے چاہے جتنا بھی پریشر ہو، جون میں کہا گیا آپ کمٹمنٹ کریں کہ جتنی چیزیں آپ کریں گے کابینہ بیٹھی ہم نے دیکھا کہ یہ ساری چیزیں قومی مفاد میں ہیں کہا گیا ٹیرر فنانسنگ روکنے کیلئے قانون سازی کریں منی لانڈرنگ روکیں کرپشن کو روکنے اور اس قسم کی باتیں ٹھیں کہہ سکتے تھے کہ ہم نگران ہیں ایسا نہیں کر سکتے یہ ایک اہم مسئلہ تھا جس کا ہمیں فیصلہ کرنا پڑا۔

ای پیپر دی نیشن