پاکستان اور ترکی کے تعلقات آٹھ ۔ نو دہائیوں سے ہیں۔ آج ترکی، اسلامی دنیا کا ایک جدید ملک ہے۔ ترکی نے نہ صرف معاشی اور اقتصادی طور پر بلکہ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں بھی شاندار ترقی کی ہے جس کے تجربات سے پاکستان، زندگی کے ہر شعبہ سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کرنل ( ر) مسعود اختر شیخ ترک لٹریچر کے مترجم اور ممتاز سکالر تھے۔ انھوں نے تقریباََ چھ دہائیوں سے ترکی ادب، تاریخ اور سیاسی موضوعات کو انگریزی اور اردو میں ترجمہ کیا۔ وہ 25 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ انھوں نے ترکی زبان سے براہ راست ترجمے کیے۔ مسعود اختر شیخ نے ادب کے توسط سے پاکستان اور ترکی کے درمیان ثقافتی تعلقات کے فروغ کے لیے نصف صدی تک خدمات انجام دیں۔ ان کا قیام اسلام آباد میں تھا۔ لاہور میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی اور وھیں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ حال ہی میںوہ اپنے عارضی سفر کی تکمیل کر گئے۔ مسعود اختر شیخ 1963ء کو پہلی مرتبہ ترکی گئے۔ واپسی پر ان کے دوستوں نے ترکی کے دورے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ترک اور پاکستان کا موازنہ اس طرح کیا کہ پاکستان، کراچی ہے تو ترکی کو آپ گوجر خان سمجھ لیں۔ گویا اس وقت یہ اس قدر پسماندہ ملک تھا لیکن آج ترکی یورپ کا مدمقابل ہے۔ اب ترکی، کراچی ہے اور ہم ’’گوجر خان‘‘ بنتے جا رہے ہیں۔ ترک میں ذریعہ تعلیم اور رابطے کی زبان ترکی ہی ہے۔ مسعود اختر شیخ نے ترک جا کر ان کی زبان سیکھی۔ انھوں نے ترک ادیبوں کی کتابوں کے ترکی سے انگریزی اور اردو میں تراجم کیے۔ ان کی کتاب ’’ترکی کے بہترین افسانے‘‘ 2002ء میں چھپی۔ اس میں بائیس ترک ادیبوں کی 36 کہانیوں کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کیا۔ کرنل صاحب کی ایک کتاب اتاترک کی سوانح پر ہے۔ جس میں انھوں نے اتاترک پر لگائے گئے الزامات کی صراحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتاترک نے اجتہاد پر زور دیا اور مختلف معاملات کا حل تلاش کیا۔ انھوں نے مزاروں پر جا کر قبروں کو سجدہ کرنے اور تعویذ گنڈوں پر پابندی لگائی اور قرآن حکیم کی اس اشاعت پر پابندی لگائی جس کا ترکی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہوتا تھا۔ کرنل مسعود اختر شیخ نے ترکی کے معروف ادیب اورحان کمال کی کہانیوں کا بھی ترجمہ کیا۔ یہ بہت عمدہ کہانیاں لکھتے ہیں۔ اورحان کمال غریب تھا۔ اس کی کہانیاں غریبوں کے بارے میں ہیں۔ ناظم حکمت اور اورحان کمال کچھ عرصہ جیل میں اکٹھے بھی رہے۔ فوجی ملازمت کے دوران انھیں سیاسی نظریات کی وجہ سے پانچ سال کی سزا ہوئی تھی۔ ناظم حکمت کے ساتھ ان کا تعلق سوشلسٹ نظریات پر کافی اثر انداز ہوا۔ ان کی تحریریں عموماََ ان لوگوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتی ہیں جو زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں۔ کرنل صاحب نے لگن کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے پنجابی زبان میں چند کہانیاں بھی لکھیں۔ ترکی ادیبوں اور دانشوروں یاشر کمال، ناظم حکمت، اورحان کمال، عزیز نہ سن، محمد فتح اللہ گولن، بلندایجوت، اورحان پامک، خالدہ ادیب اور دیگر نے جو ادب تخلیق کیا ہے، اس کو جدید دنیا کا شاندار ادب قرار دیا گیا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکا کہ ترک معاشرے نے اپنے تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ جدیدیت کی بنیاد رکھی۔ اس طرح ترک آج کسی بھی طرح مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے نہیں۔ ان کی ترقی معاشی، اقتصادی، ادبی اور تہذیبی شعبوں میںہے۔
پاکستان، ترکی کے قریبی دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کرنل مسعود اختر شیخ 1978ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔ کرنل مسعود اختر شیخ نے فتح اللہ گولن کی کتاب کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ ترکی میں اس کتاب کا نام ہے۔ "OLCO VEYA YOLDAKI ISIKLAR"اردو میں یہ کتاب ’’المیزان یا چراغ راہ‘‘ کے نام سے 2009ء میں اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ کرنل صاحب نے یہ اہم کتاب اپنے دستخط سے راقم کو پیش کی۔ شیخ محمد فتح اللہ گولن 1938ء میں صوبہ ارمزوم کے شہر ’’حسن قلعہ‘‘ کے ایک گاؤں’’کوروجک‘‘ میں پیدا ہوا۔ آپ نے ایک دین دار گھرانے میں پرورش پائی۔ گولن نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت پر بھی توجہ دی۔ چناںچہ اس سلسلے میں آپ خانقاہ جاتے رہتے تھے۔ آپ نے مغربی و مشرقی تہذیب، فکر اور فلسفے کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ عصری علوم مثلاََ فزکس، کیمیا، فلکیات اور حیاتیات وغیرہ سے بھی واقفیت حاصل کی۔
محمد فتح اللہ گولن کے چند اقوال ہیں۔
٭ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے اردگردکے لوگوں سے تعلقات خراب ہونے پر آپس میں پیدا شدہ بدمزگی کو جلد از جلد دور کر کے نئے سرے سے دوستی قائم کرنا جانتا ہو۔ اس سے بھی زیادہ عقلمند شخص وہ ہوتا ہے جو اتنا محتاط رہتا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی ناچاقی پیدا ہی نہ ہو۔
٭شرائط خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہوں، حقیقی انسان اپنی بالٹی میں دودھ دوہتے ہوئے دوسروں کی بالٹیوں کو بھی خالی نہیں جانے دیتا۔
٭تو اپنے آپ کو بیان کرنا چھوڑ دے۔ اپنے طرز عمل سے کہہ، تجھے بیان کردے۔
٭جس طرح خود غرض انسان کا کوئی دوست نہیں ہوتا، اسی طرح اس کے ضمیر کے لیے امن کا بھی فقدان ہوتا ہے۔
٭تشدد کے خلاف کی جانے والی سب سے عمدہ دعا وہ ہے جو آرام اور سکون کی حالت میں کی جاتی ہے۔