بلکہ بات چیت کے بعدسراون ڈکسن ان کی آخری تجویز یہ تھی کہ جموں اور لداخ کے جو علاقے ہندوستان کے پاس ہیں وہ غیر مسلم ہیں اور وہ ہندوستان کو ہی ووٹ ڈالیں گے جبکہ پونچھ ،جموں اور وادی کشمیر کے جن علاقوں پر آزاد کشمیر حکومت قائم ہے اور گلگت بلتستان جو پاکستان کے قبضہ میں ہیں یہ سب مسلم اکثریت کے علاقے ہیں انکو پاکستان کو دے دیا جائے اور صرف کشمیر کی وادی میں ریفرنڈم کروا لیا جائے۔اس تجویز پر ہندوستان کی حکومت راضی نظر آتی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا وادی میں شیخ عبداللہ اور اس کی نیشنل کانفرنس کا بہت اثرورسوخ ہے وہ وہاں ریفرنڈم جیت جائیں گے لیکن خود شیخ عبداللہ نے اس تجویز کی مخالفت کی اس کا موقف تھا کہ پوری ریاست کا فیصلہ ایک ساتھ ہونا چاہیے ۔پاکستان نے بھی اس تجویزکو منظور نہ کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں پورے جموں کشمیر کا ایک ساتھ فیصلہ کرنے کا کہا گیا ہے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو خطرہ تھا کہ وادی کشمیرمیں شیخ عبداللہ کی مقبولیت کی وجہ سے پاکستان صرف وادی کشمیر میں ہونے والا ریفرنڈم ہار نہ جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیخ عبداللہ خود اس تجویز کی مخالفت کر چکا تھا ۔پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جب نہرو کی اس تجویز میں دلچسپی نظر آئی تو ان کو خیال ہوا کہ اس میں ضرور ہندوستان کی کوئی چال ہوگی ۔لیاقت علی خان نے مطالبہ کر دیا کہ ہندوستان لکھ کر دے کہ وہ کون کون سے علاقے پاکستا ن کو ریفرنڈم کے بغیر دینے کو راضی ہے۔ہندوستان اس پر راضی نہ ہوا اور اس طرح یہ تجویز بھی ناکام ہوگئی ۔سر اوون ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ دونوں ممالک کو کسی متفقہ طریقہ کار پر راضی کیا جاسکتا ہے انہوں نے لکھا کہ میرے خیال میں بڑے عرصے تک جنگ بندی لائن ہی دونوں کے درمیان
حد رہے گی ۔انہوں نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ اس لائن کو مستحکم کرنے کے اقدامات کئے جائیں ۔یہاں اقدام متحدہ کے مبصرین مستقل رہیں اوردونوں ممالک کی افواج کی تعداد میں کمی کے انتظامات کئے جائیں ۔سر اوون ڈکشن کے بعد بھی اقوام متحدہ نے اپنی کوشش جاری رکھی اور اس کے دو اور نمائندے بھی مقرر ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا ۔1954میں نہرو نے ریفرنڈم کی تجویز سے ہی انکار کر دیا جب پاکستان مغربی اتحادوں سیٹو اور سینٹو کا ممبر بن گیا تو نہرو نے ایک نہ سمجھ جانے والی منطق بیان کی کہ اس کی وجہ سے خطے کے حالات اس طرح تبدیل ہو گئے ہیں کہ اب پاکستان سے کشمیرپر کوئی بات چیت نہ ہو گی اور کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا ۔1957کے بعد جب ہندوستان روس کے کیمپ میں شامل ہو گیا تو روس اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی ہر قرار داد ویٹو کرنے لگ گیا اور یہ سلسلہ 1965کی پاک بھارت جنگ تک جاری رہا۔میرے خیال میں اقوام متحدہ کے ریفرنڈم کرانے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک میں شدید بد گمانی ہے ۔دوسری وجہ یہ تھی کہ کوئی بھی ریفرنڈم میں ہارنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا ۔ہندوستان ایسے حالات میں ریفرنڈم چاہتا تھا جن میں وہ دھونس دھاندلی سے جیت جائے جبکہ پاکستان جائز طور پر غیر جانبدار حکومت کی موجودگی میں ریفرنڈم چاہتا تھا۔ ایک اور وجہ جس کا عام طور پر ذکر نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ ہندوستان بڑی حد تک جن علاقوں پر قابض تھا ان سے مطمعن تھا تمام غیر مسلم علاقے اس کے قبضے میں آچکے تھے۔وادی کشمیر جس میں نہرو کو جزباتی لگائو تھا اور کشمیر کی معیشیت اور سیاحت کے حوالے سے اہم ہے انکے قبضے میں تھی اور لداخ کے راستے انکو چین کی سرحد تک رسائی حاصل تھی ہندوستان ان علاقوں کو کھونے کا کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہتا تھا 80%مسلمان ریاست میں آزادانہ ریفرنڈم ہارنے کے بھارت کے کافی امکانات تھے اس لیے وہ کسی نہ کسی طرح ریفرنڈم سے فرار حاصل کرتا رہا۔
٭…آزاد جموں کشمیر کا قیام
15اگست 1947کو برطانیہ کے ہندوستان کو آزادی دینے کے بعد ریاست جموں کشمیر ایک آزاد مملکت بن چکی تھی ۔جیسا کہ پچھلے کالموں میں بتایا کہ راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان اور پاکستان کسی سے بھی الحاق نہ کیا تھا ۔اور وہ خود ریاست کو آزاد ملک رکھنا چاہتا تھا اب صورتحال یہ تھی کہ ریاست کی 80% آبادی مسلمان تھی اور حکمران ایک جابر و ظالم ڈوگرہ ہندو راجہ تھا جو کہ مسلمانوں پر ریاستی طاقت کی مدد سے حکومت کر رہا تھا ریاست کے مسلمانوںمیںبھی پورے ہندوستان کی طرح انگریزوںسے آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش قدرتی امر تھا ۔شیخ عبداللہ بھی ریاست جموں کشمیر کو آزاد مملکت بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا وہ اس کو ایشیا ء کا سوئزرلینڈ کہتا تھا اور سیا حت کا مرکز بنانا چاہتا تھا ۔شیخ عبداللہ نے ہندوستا ن کی مدد سے ریاست کا وزیراعظم بننے کے بعد بھی متعدد مواقع پر اپنی اس خواہش کو پایا تکمیل پہنچانے کی کوشش کی بلکہ شاید اسی کوشش میں حکومت سے ہٹایا گیا اور قید کیا گیا۔جنوری1948میں شیخ عبداللہ اقوام متحدہ میں ہندوستانی وفد کے ممبر تھے انہوں نے وہاں امریکی نمائندہ وارن آسٹن سے ملاقات کی اور ریاست جموں کشمیر کو آزاد مملکت بنانے پر بات کی ۔ستمبر 1950میں ہندوستان میں امریکی سفیر لوئے ہنیڈ رسن نے شیخ عبداللہ سے سرینگر میں ملاقات کی تو بھی شیخ عبداللہ نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ۔1951میں شیخ عبداللہ نے اس وقت کے آزاد کشمیر کے صدر چوہدری غلام عباس سے بھی اس مقصد کے لیے رابطہ کیا ۔راجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ تو ریاست کو آزاد مملکت بنانے میں کامیاب نہ ہوئے لیکن ریاست کے مسلمانوں کے جذبہ آزادی کو نہ راجہ دبا سکا نہ ہندوستان ۔انگریزوں کے جاتے ہی ریاست کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں نے راجہ کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کر دی خاص طور پر پونچھ کے علاقے میں ا س تحریک نے زور پکڑ ا پونچھ کے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد (تقریباََساٹھ ہزار ) دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج میں کام کر چکے تھے اور اب ریٹائرڈ ہو کر اسلحہ سمیت پونچھ میں موجود تھے۔