"ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے مکالمہ"ایک ایسی تصنیف ہے جسے قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مکالمے /کالم وسیع الفہوم ، متنوع اور جامع موضوعات اور دور حاضر کے معاملات و مسائل اور حالات و واقعات کو اپنے اندر اس طرح سمیٹے ہوئے ہیںکہ ان کے بارے میں سرورق پر"زندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ایک علمی اور تاریخی دستاویز "جیسی تعارفی سطر تحریر کرنا ہر لحاظ سے موضوع ، مناسب اوربر محل لگتا ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر وقار ملک کی اس کاوش کی تحسین کی جانی چاہیے کہ انھوں نے جناب ایس ایم ظفر سے ربع صدی پر پھیلے طویل عرصے کے دوران کے کیے جانے والے مکالموں کو بڑی عرق ریزی ، جانفشانی اور محنت کے ساتھ مختلف موضوعات کے تحت تقسیم کرکے کتاب میں شامل کیا ہے۔ ایس ایم ظفر کا ذکر کریں تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ کا معاملہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا گیا آیا تو اس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو اگر چہ صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے ان کی بجائے وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر کو بھیجا گیا (اس بات کا ذکر اس کتاب میں بھی موجود ہے)۔ جناب ایس ایم ظفر نے پاکستانی وفد کی بڑی کامیابی اور محارت سے قیادت کی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر پاکستان کی طرف سے دستخط بھی کیے۔ ایس ایم ظفر کے بارے میں ذہن کے نہاخانے میں جھانکوں تو کئی اور باتیں بھی یاد آتی ہیں۔ ان کی وجہ شہرت نامور قانون دان کی تو تھی ہی اس کے ساتھ اپنے دور کی نامور گلوکارہ محترمہ ملکہ پکراج کا داماد ہونا بھی ان کی شہرت کا سبب گردانہ جا سکتا ہے ۔ اسی طرح ملکہ پھکراج کی دوسری صاحبزادی اور اپنے دور کی نامور گلوکارہ محترمہ طاہرہ سید رشتے میں ایس ایم ظفر کی خواہر نسبتی بنتی ہیں۔ ظفر صاحب بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک نامور اور ممتاز قانون دان ہونے کے ساتھ ایک سنجیدہ خو دانشور ، ایک سچے ، مخلص اور محب وطن پاکستانی اور ایک نمایاں سیاسی ، سماجی اور علمی شخصیت کے طور پر قومی زندگی میں معروف چلے آرہے ہیں تو کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا۔ وہ مرحوم پیر پگاڑہ کی مسلم لیگ میں نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے تو پرویز مشرف دور میں چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں قائم مسلم لیگ ق کے مرکزی قائدین میں بھی شامل رہے ہیں۔ اس دوران انہیں سینیٹ آف پاکستان میں بطور سینیٹر نمائندگی کا موقع بھی ملارہا۔
جناب ایس ایم ظفر کی شخصیت کے یہ سارے پہلو ، ان کے یہ سارے مناصب اور ان کی یہ ساری حیثیتیں ان کے لیے وجہ افتخار سمجھی جا سکتی ہیں لیکن ان کی ایک سچے ، مخلص اور دردمند پاکستانی کی حیثیت ، ایک نمایاں اور ممتاز قانون دان کا مقام اور ایک صاحب الرائے اور صاحب بصیرت دانشور ہونا ان کی تمام حیثیتوں اور ان کی شہرت کے اسباب پر حاوی گردانہ جا سکتا ہے۔ جناب ایس ایم ظفر کی ہمہ پہلو اور متنوع شخصیت کے بارے میں کچھ اور باتیں بھی لکھی جا سکتی ہیں لیکن واپس کتاب کی طرف آتے ہیں۔ جیسے شروع میں کہا گیا ہے کہ مصنف نے ایس ایم ظفر سے اپنی گفتگووں اور مکالمات پر مشتمل اپنے کالموں کو جو مختلف اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ان میں سے بعض کے آخر میں اگرچہ اخبار یا جریدے کا نام اور تاریخ اشاعت بھی لکھی گئی ہے لیکن یہ کالم یا مکالمے تاریخی ترتیب سے کتاب میں شامل نہیں کیے گئے ہیں بلکہ مختلف موضوعات اور عنوانات کے تحت ان کو تقسیم کیا گیا ہے۔ ان عنوانات میں حالات زندگی ، تصور پاکستان ، انسانی حقوق / حقوق نسواں ، عدلیہ ، جمہوریت ، مذہب، سائنسی امور ، مسئلہ کشمیر / پاک بھارت تعلقات ، مسئلہ فلسطین /اسرائیل ، بین الاقوامی امور ، اہم قومی مسائل ، دہشت گردی ، کالاباغ ڈیم، ذرائع ابلاغ ،طنز و مزاح، تفریح اور متفرق وغیرہ عنوانات شامل ہیں۔ ان عنوانات کی کل تعداد 17بنتی ہے تو ان کے تحت یا ان کی ذیل میں آنے والے مکالموں یا کالموں کی تعداد 159ہے۔ بلاشبہ یہ انتخاب جہاں انتہائی چشم کشا ہے وہاں پڑھنے والوں کے علم و آگاہی میں اضافے کا سبب ہی نہیں بنتا ہے بلکہ ان کے لیے سوچ ، سمجھ ، شعور اور دانش و بصیرت کے نئے زاویے بھی وا کرتا ہے۔ اس سے پڑھنے والوں کا اسلام اور اسلام کی تعلیمات سے لگائو ، پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت ، ملی قومی اور تاریخی روایات و اقدار کی پاسداری اور باہمی روابط میں مثبت رویوں کے اظہار کو فروغ دینے کی جہاںحوصلہ افزائی ہوتی ہے وہاں پڑھنے والوں پر ان کالموں کے گہرے اثرات مرتب ہونے کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔ 672صفحات اور 8صفحات پرپھیلی نادر تصاویر پر مشتمل یہ کتاب اپنے ظاہری حسن، خوب صورت گیٹ اپ ، پرکشش سرورق ، مضبوط جلد اور غلطیوں سے مبرا چھپائی کے لیے بلاشبہ تحسین کی مستحق ہے۔ اس کے لیے اشاعتی ادارے اور اس کے مہتمم علامہ عبدالستار عاصم کی جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہوگی ۔ کہ وہ ایک ایسی تصنیف سامنے لائے ہیں جس میں بیک وقت علم و معلومات کا خزینہ تاریخ کا مطالعہ ،تہذیب کا شعور اور حالات و واقعات کی منظر کشی نظر آتی ہے۔آخر میں مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں اس زخیم کتاب کا پوری طرح مطالعہ نہیں کر سکاہوں لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے کہ اس نے میرے دل کے تاروں کو جھنجوڑا ہی نہیں ہے بلکہ میرے علم و آگاہی میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے محترمہ بشریٰ رحمان مرحومہ نے جو تبصرہ کیا ہے اور جس کا ایک اقتباس کتاب کے بیک ٹائٹل پر چھپا ہوا ہے بلاشبہ پڑھنے کے لائق ہے ۔
اس میں انھوں نے محترم ایس ایم ظفر کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ کتاب کے مصنف ڈاکٹر وقار ملک کی بھی کھلے الفاظ میں تعریف کی ہے کہ وہ اس طرح کی ایک قابل قدر تصنیف سامنے لے کر آئے ہیں۔