وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب،فریقین جمہوری اصولوں کی پاسداری کریں

پاکستان کی قومی سیاست اس وقت پنجاب کی سیاست کے گرد گھوم رہی ہے۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی کے حامل صوبے پنجاب کی پگ کِس کے سر پر ہو گی۔ اس کا فیصلہ آج ہو جائے گا۔ عدلیہ کی طرف سے جاری کردہ فیصلے کی رُوسے آج (22 / جولائی) کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں اور حکومت مخالف پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے بھرپور تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ /17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں، جو پی ٹی آئی کے بیس منحرف ارکان صوبائی اسمبلی کو ڈی سیٹ کیے جانے کے عدالتی فیصلے کے روشنی میں منعقد کیے گئے، پی ٹی آئی نے غالب اکثریت حاصل کر لی۔ اسے 20 میں سے 15 نشستیں ملیں جبکہ اس کے مدّمقابل حکومتی اتحاد صرف چار نشستیں جیت سکا۔ ایک نشست آزاد امیدوار کے حصے میں آئی۔ ضمنی انتخابات کے مذکورہ نتائج سامنے آنے کے بعد پنجاب کی سیاست میں ایک نیا موڑ آ گیا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے منصب کے حصول کے لیے دونوں گروپوں کی طرف سے تگ و دو شروع ہو گئی۔ قبل ازیں مسلم لیگ نواز کے حمزہ شہباز اکثریتی ووٹوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے لیکن ان کے انتخاب کو چیلنج کیے جانے کے بعد عدلیہ کی طرف سے فیصلہ صادر کیے جانے پر اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے آج ووٹنگ کی جائے گی۔ بظاہر گنتی کے اعتبار سے اس وقت تحریکِ انصاف اور اس  کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق بہتر پوزیشن میں آ چکی ہے کیونکہ  عددی لحاظ سے مسلم لیگ نواز اور اس کی اتحادی جماعتوں پر فوقیت حاصل ہو گئی ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی کسی وقت بھی ہو سکتا ہے یہاں جیتی ہوئی بازی ہار دی جاتی ہے۔ پھر ہماری جمہوری روایات میں یہ روایت سیاہ ترین روایت کے طور پر قائم چلی آ رہی ہے کہ یہاں منتخب ارکان  کو منہ مانگی قیمت دے کر خریدا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں صرف ایوانِ زیریں ہی نہیں ایوانِ بالا بھی اس مکروہ عمل سے محفوظ نہیں رہا۔ یہاں بھی ارکان کی خرید و فروخت پورے دھڑلے اور آزادی کے ساتھ کی جاتی رہی ہے اور اس سارے عمل کو ہارس ٹریڈنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے سلسلے میں بھی ان دنوں ایک بار پھر ہارس ٹریڈنگ کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ دونوں اطراف سے الزام بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ نواز کے صدر اور پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے منصب کے امیدوار حمزہ شہباز کے والد وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری گزشتہ دو روز سے صوبائی دارالحکومت میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اپنے رفقاء کے ساتھ لاہور پہنچ چکے ہیں۔ ان قائدین کے صوبائی دارالحکومت میں قیام کے بعد پورے ملک کی نظریں اس وقت لاہور کی سیاست پر جمی ہوئی ہیں۔ جوڑ توڑ کے ماہرین اپنی اپنی تدابیر کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ مسلم لیگ قائد اعظم اور تحریکِ انصاف کے ارکانِ پنجاب اسمبلی کے لیے چار ستارہ  ہوٹلوںمیں کمرے بک کیے جا چکے ہیں۔ جہاں سے معزز ارکان پنجاب اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں شرکت کریں گے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلے میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ مسلم لیگ نواز اور اس کی اتحادی پیپلز پارٹی نے اس ضمن میں حکمتِ عملی مرتب کر لی ہے اور اس کے مطابق  پیش رفت کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف اور ق لیگ نے بھی اپنے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے پتے کھیلنے شروع کر دئیے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر داخلہ عطاء اللہ تارڑ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری اور دیگر کے درمیان الزامات پر مبنی سخت الفاظ اور جملوں کا تبادلہ جاری ہے۔ صوبائی دارالحکومت اس وقت حقیقی معنوں میں چھانگا مانگا اور بھوربن کا منظر پیش کر رہا ہے۔ 
 کس قدر افسوسناک بات ہے کہ جمہوریت کے دعویدار اور جمہوریت کو ملک کی سلامتی و بقاء کی ضامن قرار دینے والے اہلِ سیاست آج کل جمہوریت کی جس طرح مٹی پلید کر رہے ہیں جس نے  جمہوریت کا چہرہ داغدار کر کے رکھ دیا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کے عزم سے سرشار ہمارے سیاستدان اخلاقیات اور اصولوں کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔ صرف الفاظ کی لڑائی پر اکتفا نہیں کیا جارہا عملاً ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو عمومی جمہوری رویوں کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے وعدے وعید، ان کے دعوے اور اعلانات سب ان کے کردار و عمل کی ناپختگی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ پوری قوم اپنے ان قائدین کے ا یک ایک عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے اور انگشت بدنداںہے کہ اس قدر پست کردار کے حامل اگر اقتدار میں آ کر ملک کی حقیقی باگ ڈور سنبھالیں گے تو قوم کی کس طرح  رہنمائی کر پائیں گے ۔ آج ملک معاشی طور پر بدترین حالات سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث ہم  بحیثیت قوم تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ ترقی ٔمعکوس کا یہ سفر تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ ڈالر کی غیر معمولی اڑان، روپے کی گراوٹ، سٹاک ایکسچینج کی تباہی، زرِمبادلہ میں مسلسل کمی اور افراطِ زر کے نتیجے میں مہنگائی کے سونامی اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ذاتی اور جماعتی مفادات سے باہر نکل کر صرف ملک اور قوم کے مفاد کے لیے یکسو ہو جائیں۔ یہ اقتدار عارضی چیز ہے آج  ہے کل نہیں ہو گا تاریخ انسانی  ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اقتدار کو کبھی دوام نہیں رہا۔ اعلیٰ اصول، بہترین آدرشن اور کردار و عمل کی پختگی ہی انسان کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اہلِ سیاست گندی اور الزامات سے آلودہ سیاست کو چھوڑ کر صاف ستھری سیاست کی بنیاد رکھیں۔ قائدِاعظم کے پاکستان کو قائد کے سنہری اصولوں کی روشنی میں پروان چڑھائیں۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے انتخاب کے شفاف عمل کے ذریعے وزیر اعلیٰ منتخب کریں اور ملک ،عوام اور احکم الحاکمین کے سامنے سرخرو ہوں۔ 

ای پیپر دی نیشن