لاہور(کامرس رپورٹر )تاجر برادری نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے اور معیشت کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے ڈالر کی قیمت میں اضافے کو روکے۔ گزشتہ روز محمد فیصل افضل سابق نائب صدر گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قیادت میں گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں اور تاجروں کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی ٹیکس محتسب کے کوارڈینیٹر اور لاہور چیمبر کے سابق سینئر نائب صدر مہر کاشف یونس نے کہا کہ سیاسی بدامنی نے کرنسی کے اتار چڑھاؤ کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے جس کی وجہ سے روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے اور اس کی وجہ سے پوری بزنس کمیونٹی پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی منظر نامے میں کسی بھی طرح کی اچانک تبدیلی آئی ایم ایف سے قرضے کے شیڈول کو خطرے میں ڈال دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اتار چڑھائو بظاہر پنجاب میں ضمنی الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی تنائو کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں کی سیاسی اور معاشی ابتری کا براہ راست اثر عام لوگوں کی زندگی پر پڑے گا جو کئی سال کی بلند ترین مہنگائی، بیروزگاری میں اضافے اور قوت خرید میں کمی جیسے سنگین مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اعلیٰ سیاسی قیادت اور حکمران ملک اور اس کے معصوم عوام کے مستقبل کے لیے اہم سیاسی اور معاشی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مل بیٹھیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ دوست ممالک سے4 ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ آئی ایم ایف سے 1.2 بلین ڈالر کے بیل آو ¿ٹ پیکج کی امید ہے ۔
تاہم زمینی حقائق کاروباری برادری کو فوری طور پر ریلیف فراہم کرنے کے متقاضی ہیں تاکہ ڈالر کی اڑان کے منڈلاتے خطرے کو دور کیا جا سکے جو معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی اس قدر تیز رفتار ہے کہ ڈالر کا انٹر بینک ریٹ 227 روپے تک پہنچ گیا ہے یعنی صرف ایک ماہ میں روپے کی قدر میں تقریباً اٹھ فیصد کمی ہو چکی ہے۔ چونکہ ہماری انڈسٹری کا انحصار خام مال، پرزوں اور مشینری کی درآمد پر ہے اس لئے روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی کرنسیوں میں تجارت خصوصاً چین کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت سے پاکستان کو امریکی ڈالر پر انحصار کے بوجھ کو ختم کرنے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ پاکستان کی صرف چین کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم 13 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر ہم علاقائی ممالک کے ساتھ بالعموم اور چین کے ساتھ بالخصوص مقامی کرنسی میں لین دین کے معاہدے کرلیں تو اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباو ¿ نمایاں طور پر ختم ہو جائے گا اور ڈالر پر انحصار بھی کم ہو گا۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ تجارتی خسارہ ہے اس لئے علاقائی ممالک کے ساتھ کرنسی کے تبادلے کے معاہدوں سے پاکستانی کرنسی کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی کیونکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں کمزور پاکستانی روپیہ معیشت کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ مستحکم معیشت کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی ترسیلات سے بھی صورت حال میں قدر بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے