اسلامی سال شروع ہو چکا ہے اور یہ آغاز دین اسلام کی ایسی شخصیت کی شہادت سے ہوتا ہے جو دامن اسلام میں وہ عظیم الشان آفتاب و ماہتاب شخصیت ہیں کہ جن کی عالم اسلام کے لیے روشن خدمات، جرات و بہادری عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات، شاندار کردار اور کارناموں سے تاریخ انتہائی معطر چمکدار اور روشن ہے۔ ایک ایسا انمول اور نایاب اسم گرامی ہے جس کی عظمت روح وہ دبدبہ شجاعت بہادری انصاف عاجزی انکساری فہم و فراست قانون عدالت تقوی ایثار و قربانی غریب پروری محبت اہل بیت اور محبت رسول کو بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ جو امیر المومنین ہیں۔ قلب رسول ہیں۔ داماد علی المرتضی ہیں۔ حاکم عناصر اربع ہیں۔ شہید ممبر و محراب رسول ہیں۔
انتخاب رب العالمین، وزیر پیغمبر خلیفہ دوم ہیں۔ وکیل ام المومنین ہیں۔ فاتحہ بصر و کسرہ ہیں۔ شامل عشرہ مبشرہ ہیں۔ یہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ آپ کا سلسلہ نویں پشت میں حضور پاک سے ملتا ہے۔ آپ کی ولادت واقعہ فیل کے 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے خصوصی دعا مانگی تھی۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی قوت وعظمت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مسلمان اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت سر انجام دینے لگے۔
حضور پاک نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وھ عمر بن خطاب ہوتے۔ ترمزی شریف۔ سیدنا عمر فاروق عشرہ مبشرہ جنت کی بشارت پانے والوں میں شامل ہیں۔ آپ حددرجہ ذہین سلیم الطبع اور صاحب الراے تھے۔
فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام تھا۔ آپ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو 22 لاکھ مربع میل پر فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ اپنے دور خلافت میں بیت المال اور عدالتیں قائم کیں۔ سن ہجری تاریخ کا اجراء کیا جو آج تک جاری ہے۔ بے پناہ رفاہی اور اصلاحی خدمات سر انجام دیں۔ ٹیکس سسٹم بنایا۔ حربے تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ جیل خانہ جات راتوں کو گشت کر کے رعایا کا حال دریافت کرتے۔ مدینہ منورہ تک مسافروں کے لیے مکانات، گمشدہ بچوں کی پرورش کے لیے وظیفے، مختلف شہروں میں مہمان خانے، مکاتب کا طریقہ مساجد کے آئمہ کرام اور موذنوں کی تنخواہیں، مساجد میں راتوں کو روشنی کے انتظام کا حکم دیا۔
آپ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے۔ 4000 مساجد کا قیام عمل میں آیا۔ تاریخ اسلامی کی اس عظیم الشان ہستی جس کی دسترس میں پوری دنیا کے خزانے تھے، ان کا اپنا حال یہ تھا کہ 17، 17 پیوند لگے کپڑے آپ نے زیب تن فرمائے ہوتے تھے۔ ان کے دور خلافت میں ایک عام شہری کو بھی یہ اختیار تھا کہ وہ دوران خطبہ ان کو روک کر یہ سوال کر سکتا تھا کہ آپ کو ایک اور چادر مال غنیمت سے کیسے ملی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر اسلام لے آئے۔
حضرت ابن عباس نے کہا اے امیر المومنین نبی کریم آپ سے راضی تھے۔ صدیق آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ کرام کے ساتھ رہے، حضرت عمر نے فرمایا یہ اللہ کا مجھ پر احسان ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر سونا ہوتا تو عذاب الہی سے پہلے اسے فدیہ کر دیتا۔ آپ کی شہادت کی خبر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی۔ ایک روز کوہ احد پر تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی تھے۔ احد پہاڑ پر وجد آگیا آپ نے فرمایا اے احد ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
26 ذوالحج 23 کو آپ پر فیروز مجوسی نے فجر کے وقت حملہ کیا اور یکم محرم 24 کو جام شہادت نوش فرمایا۔ نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رحمت اللہ علیہ نے پڑھائی اور روضہ نبوی میں سیدنا صدیق اکبر کے پہلو میں تدفین ہوئی ہوئی۔
وہ جن کی ہیبت سے لرزاں بر اندام تھی دنیا
Jul 22, 2023