اقتصادی رابطہ کمیٹی نے عام انتخابات کیلئے ساڑھے 42 ارب روپے کی گرانٹ منظور کرلی ہے جبکہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ووٹنگ کا مینڈیٹ الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کی تجویز بھی دے دی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کی زیرصدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی بھجوائی سمری کی منظوری دی تاہم انتخابات کیلئے فنڈز کی حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائیگی۔ الیکشن کمیشن کو ابتدائی طور پر دس ارب روپے کے فنڈز جاری کئے جائیں گے۔
دوسری جانب پاکستان الیکشن کمیشن نے وقت سے پہلے یا وقت پر قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد ہر دو صورتوں میں نئے انتخابات کرانے کیلئے اپنی مکمل تیاری کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے بتایا کہ اگر مشترکہ مفادات کونسل سے نئی مردم شماری کی منظوری حاصل ہو جاتی ہے تو نئی حلقہ بندیوں کیلئے ساڑھے چار ماہ درکار ہونگے۔ الیکشن کمیشن نے پولیٹیکل فنانسنگ مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا ہے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بقول الیکشن کمیشن قانونی اصلاحات کے مطابق ہی انتخابات کرائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم پر کام کیا ہے اور اسکے تحت ووٹنگ کیلئے ہم پرعزم ہیں۔ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی میڈیا بریفنگ کے دوران سپیشل سیکرٹری ظفر اقبال نے بتایا کہ موجودہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے۔ اگر اسمبلی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوتی ہے تو پھر 12 اکتوبر تک الیکشن ہو جائیںگے اور اگر اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہوئی تو پھر نئے انتخابات 90 دن کے اندر ہونگے۔ انکے بقول پرانی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں مکمل ہیں اور ووٹر مارک بیلٹ پیپرز بھی حاصل کرلئے گئے ہیں جبکہ جوڈیشری سے ریٹرننگ افسران لینے کیلئے پشاور‘ بلوچستان‘ سندھ اور اسلام آباد ہائیکورٹس کے رجسٹرار صاحبان کو مراسلے بھجوا دیئے گئے ہیں۔ اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل پولیٹیکل فنانس مسعود شیروانی نے پولیٹیکل فنانس کے حوالے سے بریفنگ دی اور بتایا کہ مجموعی 168 سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں جو تمام متعلقہ قواعد و ضوابط پورے کرکے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔
انتخابی اصلاحات ایکٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کے بطور ادارہ مکمل خودمختار ہونے کے بارے میں اب کوئی ابہام نہیں رہا اور آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انتظامات کے علاوہ اب انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے اور اس میں ردوبدل کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو تفویض ہو چکا ہے۔ چنانچہ انتخابات کیلئے تشکیل پانے والے نگران سیٹ اپ نے مکمل طور پر الیکشن کمیشن کی نگرانی میں کام کرنا اور انتخابات کے حوالے سے روزمرہ کے جملہ امور نمٹانے ہونگے۔ اس تناظر میں گزشتہ روز کی میڈیا بریفنگ میں یہ عندیہ دیا جا چکا ہے کہ مقررہ میعاد کے اندر یعنی 12 اگست کو اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی دو ماہ کیلئے نگران سیٹ اپ تشکیل پا جائیگا جو مقررہ میعاد میں انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کریگا۔ اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے اسمبلی 12 اگست سے پہلے تحلیل کردی گئی تو پھر نگران سیٹ اپ تین ماہ کیلئے تشکیل پائے گا جو اس عرصہ کے اندر اندر انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کریگا۔ نگران سیٹ اپ بہرحال وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے تشکیل پانا ہے اور اسمبلی کی مقررہ میعاد کے اندر یا اس سے پہلے تحلیل کا اختیار بھی وزیراعظم کا ہے جنہوں نے اس کیلئے صدر مملکت کو ایڈوائس دینی ہے۔
گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی جانب سے اس امر کا دوٹوک عندیہ دیا گیا کہ قومی اور باقیماندہ دو صوبائی اسمبلیاں آئندہ ماہ 8 اگست کو تحلیل ہو جائیں گی جس کے بعد نگران حکومت 90 دن کے اندر اندر انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔ اس لئے غالب امکان اسمبلیوں کی قبل ازقت تحلیل اور نومبر کے آخر تک انتخابات کے انعقاد کا ہے۔ اس کیلئے حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین بھی آئندہ کی انتخابی حکمت عملی پر باہم مشاورت کر چکے ہیں اور اپنے اپنے سیاسی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ہی قبل ازوقت اسمبلی تحلیل کرنے پر اتفاق ہوا ہوگا جس میں اپوزیشن لیڈر کے بیان کے بعد اب کسی شک وشبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی تاہم بعض حلقے مقررہ آئینی میعاد کے اندر انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں اب بھی گومگو کا شکار نظر آتے ہیں جنہیں ابھی تک موجودہ سال کے انتخابات کا سال بننے کا یقین نہیں آرہا۔ خود حکومتی حلقے اس معاملے میں شش و پنج میں ہیں کہ انتخابی عمل میں سابقہ حکمران پی ٹی آئی کی موجودگی میں اتحادی جماعتوں کو انتخابی میدان میں عوام کی جانب سے پذیرائی کیسے ممکن ہوگی کیونکہ عوام تو حکومت کی پیدا کردہ مہنگائی در مہنگائی سے زچ ہو کر حکمران جماعتوں کیخلاف تہیہ طوفان کئے بیٹھے ہیں اور پی ٹی آئی قائد کی روزافزوں مقبولیت کا باعث بن رہے ہیں۔
اب بظاہر تو مقررہ آئینی میعاد کے اندر انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہوتی نظر نہیں آرہی اور الیکشن کمیشن بھی مقررہ میعاد کے اندر انتخابات کرانے کیلئے پرعزم ہے مگر سیاسی حلقوں کو اب بھی کسی انہونی کا امکان نظر آرہا ہے چنانچہ ابھی تک انتخابی گہما گہمی کے کوئی آثار بھی نہیں بن پائے۔ اس صورتحال میں انتخابات کو آگے لے جانے کا صرف ایک ہی جواز نکل سکتا ہے جو نئی مردم شماری کے تحت ازسرنو حلقہ بندیوں کا ہے جس کیلئے سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بقول ساڑھے چار ماہ درکار ہونگے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گزشتہ روز انتخابات سے متعلق تمام لوازمات پورے کرنے کے فیصلہ کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہونگے جس سے انتخابات کے آگے جانے کا ممکنہ جواز بھی برقرار نہیں رہے گا۔
اگر حکومت بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 60 یا 90 دن کی آئینی میعاد کے اندر انتخابات پر متفق ہو چکی ہے اور الیکشن کمیشن بھی اس کیلئے تیاری مکمل کر چکا ہے جس نے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے آئین کے تحت حاصل اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر متعلقہ ریاستی‘ انتظامی اداروں بشمول عدلیہ اور فوج سے معاونت بھی طلب کرلی ہے تو اب حکومت، الیکشن کمیشن اور انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو مقررہ آئینی مدت کے اندر انتخابات کے عزم پر مکمل کاربند رہنا چاہیے اور جمہوری آئینی طریقے سے انتقال اقتدار کا پراسس مکمل ہونے دینا چاہیے۔ یقیناً اس سے ہی سسٹم کو بھی تقویت ملے گی اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنیوالی سیاسی جماعت یا انتخابی اتحاد اس پوزیشن میں ہوگا کہ وہ راندۂ درگاہ عوام کو انکے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میں مستقل ریلیف دینے کی ٹھوس پالیسی وضع کرے۔ اگر عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے بدستور محروم رکھا گیا تو وہ سسٹم سے مزید بدگمان ہونگے اس لئے تمام فریقین کو آئین کے مطابق انتخابی پراسس کی تکمیل پر متفق ہو جانا چاہیے۔ گومگو کی صورتحال سے سیاسی اور اقتصادی استحکام کی منزل دور ہی ہوتی ہے۔
حکومت اور الیکشن کمیشن کا مقررہ آئینی میعاد میں انتخابات کا عزم
Jul 22, 2023