گوشہ تصوف… ڈاکٹرپیرظہیرعباس قادری الرفاعی
drzaheerabbas1984@gmail.com
کر بلا …یہ صر ف زمین کے ایک ٹکر ے کا نام نہیں بلکہ عشق ، وار فتگی ، وابستگی اور خود کو رب کا ئنات کی محبت ومودت میں مٹا دینے کا نام ہے صبح قیامت تک کربلا حق ، سچ اور صداقت کی روشنی عام کر تی رہے گی ۔ امام عالی مقام نے کر بلا کو وہ عزت و تکریم بخشی جو کا ئنات کے آخری روز تک مظلو م اور مجبور افراد کو ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو نے کا پیغام دیتی رہے گی ۔ 10ذوالحجہ سے عشق و مر بی کا جو سفر شروع ہوا وہ 10محرم کو تمام ہوا ۔آج پو ری دنیا نواسہ رسول کی عظمت، حشمت اور ثابت قد می کو خراج تحسین اور خراج عقیدت کے گلاب پیش کررہی ہے ۔جو ش ملیح آبادی یاد آگئے
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؓ
حضرت امام حسینؓ نے اسلام کے فروغ بلکہ دین محمدی کے تحفظ کیلئے مال ، خاندان ، اولاد حتی کہ اپنی جان بھی نثار کر دی مگر اسلام کے چراغو ں کی لو (روشنی ) کم نہیں ہو نے دی ۔ احسان ، جانثاری اور قربانی کے بعد بلاشبہ امت مسلمہ قیامت تک امام حسین کی مقروض رہے گی ۔ حضرت غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی نے ٹھیک فرمایا کہ نواسہ رسو ل اور جگر گو شہ بتول نے دین اسلام کو پناہ دی ۔ اگر وہ کر بلا میں سینہ تا ن کر ظلم وجبر اور استبداد کی آندھیو ں کو نہ روکتے تو قیامت تک کیلئے ظالم کی حمایت اور طرف داری کو جواز اور سند مل جاتی ''دین است حسین ، دین پناہ است حسین''آپ کا شجرہ نسب تیسری پشت میں حضور کریم سے جا ملتا ہے۔ جناب رسالت مآب ؐکو اپنی صاحبزادی کی اولاد سے بے پناہ محبت تھی۔فرمایا"یا اللہ! جس طرح میں ان دونوں ( حسنین ) سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان دونوں کو محبوب رکھے تو بھی ان کو محبوب رکھ"امام حسین کے بچپن کے کھیل عام طور پر سپاہیانہ ہوا کرتے تھے ۔ایک دن آپ مسجد میں گئے جب حضور اکرمؐ سجدے میں گئے تو ننھے حسین آپؐکی پیٹھ پر سوار ہوگئے۔آپؐ نے اسوقت تک سر نہ اْٹھایا جب تک وہ پشت مبارک سے اْتر نہ گئے۔ ایک مرتبہ ایک لڑکے کو گود میں لیکر اْسکے ماتھے کو چْوما۔ صحابی نے پوچھا یا رسول اللہؐ! یہ کس کا ہے!!فرمایا یہ بچہ میرے حسین کے ساتھ کھیلتاتھا۔اسلئے مجھے عزیز ہے۔آپ قرآن پاک سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور بچپن ہی میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کے ساتھ پڑھتے اور باقاعدہ درس تجوید میں بیٹھا کرتے تھے۔حضور کریم ؐ کی آغوش میں ہی آپ کی قوت ادراک نے ترقی حاصل کی ۔فہم و شعور کو فروغ حاصل ہوا۔حافظہ میں تیزی اور ذکاوت جلوہ گر ہوئی۔ایک دفعہ ایک شخص نے سْنت کے مطابق نماز ادا نہ کی آپ نے فرمایا"اسی طرح نماز پڑھاکرو جس طرح حضور کریم ؐ پڑھا کرتے تھے "تہجد کی نماز میں بے حد آہ و زاری کرتے اور ذکر الٰہی میں راتوں کو حیات تازہ بخشتے تھے۔جب بھی کوئی مشکل پیش آتی فوراً نماز نفل ادا کرتے تھے ۔ایک دفعہ ایک شخص نے غصہ میں آکر آپ کے سامنے حضرت علی کے بارے میں گستاخانہ الفاظ استعمال کئے۔آپ نے فرمایا"اگر تو بھوکا پیاسا ہے یا اگر تیری کوئی حاجت ہے تو بتا کہ پوری کردوں تاکہ تیری غضبناکی دور ہو جائے۔وہ شخص آپ کا حلم و تحمل دیکھ کر بے حد شرمندہ ہوا اور گستاخی کی معافی مانگی۔آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا"انا جبال الحلم" ہم نرمی کے پہاڑ ہیں پگھلتے ہیں مگر اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔
آپ سے پوچھا گیا !!کیا نماز پڑھنے سے مصیبت دور ہو سکتی ہے آپ نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا"اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"خود بہترین خلیق تھے اور دوسروں کو بھی خلق اختیار کرنے کی تلقین فرماتے تھے ۔ایک گنوار نے آپ سے بد تمیزی کی۔آپ نے اْسے کھانا کھلاکر فارغ کیاتو لوگوں نے پوچھا کہ وہ تو آپ سے بد اخلاقی سے پیش آیا اور آپ نے اس سے اخلاق اور محبت کا رویہ رکھا ۔آپ نے فرمایا وہ ناخواندہ تھا اور میں رسول اللہ ؐ کا نواسہ اور علی المرتضیٰ کا فرزند ہوں۔ہر شخص کی عقل اپنی اپنی ہوتی ہے۔شجاع ابن شجاع تھے اور شجاعت میں بے مثل تھے۔استقامت اور ارادے کی پختگی میں یکتا تھے۔توحید و رسالت کی تبلیغ کرتے ہوئے آپ نے تین ہزار سے زائد کفار کو مسلمان کیا ۔جنگ میں خوب مہارت رکھتے تھے اور آپ نے مختلف جنگوں میں حصہ لیا تھااور آپ کے مجاہدانہ کارنامے سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں۔حضرت امام حسین کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو اعلیٰ سیرت اور اعلیٰ کردار میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتا تھا۔آپ نے خود آقائے دو جہاں ،اْن کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ اور حضرت علی کی آغوش میں پرورش پائی تھی اسلئے اسلامی معاشرے میں غیر اسلامی تبدیلیاں دیکھ کر خاموش رہنا اْن کے بس میں نہ تھا۔امام الشہدائ حضرت امام حسین نے باطل قوتوں سے ٹکراکر 10 محرم 61 ھ بروز جمعہ بوقت عصر 57 برس کی عمر میں شہادت پائی جو اپنے اندر ایک گہرا فلسفہ،اْونچا مقام اور اعلیٰ منصب رکھتی ہے''ارشاد خداوندی ہے کہ شہید مردہ نہیں زندہ ہے''
جْھکانا چاہا جِس کو شام والوں نے!
شِکست دیکھئے کہ وہی سَر اْٹھا کے چلے!