سیاسی افق پر ناامیدی کے چھٹتے بادل

بے نقاب      اورنگ زیب اعوان 
laghari768@gmail.com 
پاکستانی سیاست ہمہ وقت بے یقینی کی صورتحال سے دوچار رہتی ہے. کب کیا انہونی برپا ہو جائے. کوئی اس بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتا. کہنے اور سننے کو تو ملک پاکستان ایک آئینی دستور کے تحت چل رہا ہے. مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. یہاں ہر وہ فعل سر انجام دیا جاتا ہے. جس سے ذاتی مفادات کو فوقیت حاصل ہو. چند روز قبل وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی طرف سے بروقت الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا گیا. جس پر عمل درآمد ہوتا بھی نظر آرہا ہے. حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی بیھٹکیں بھی اس امر کا اشارہ دے رہی ہیں.  سیاسی جماعتوں کے مابین نگران وزیراعظم کے ناموں پر مشاورتی عمل چل رہا ہے. جس سے قوی امید پیدا ہو گء ہے. کہ اب الیکشن ہر صورت میں ہو گے. مگر دوسری طرف عوام میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے. ان کا کہنا ہے. کہ جب پنجاب اسمبلی تحلیل کی گء تھی . اس وقت بھی اسی قسم کے عہد و پیما کئے گئے تھے. کہ بروقت الیکشن کا انعقاد ہو گا. جو آج تک ممکن نہیں ہو پایا. شاید پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے آئین پاکستان کو اپنی منشا کے مطابق پڑھ لیا تھا. یا وہ آئینی شقوں کو درست سمت میں سمجھ نہیں پائے. یہاں جو کچھ تحریروں میں ہوتا ہے. عمل اس کے برعکس ہوتا ہے. اسی لیے کہتے ہیں. کہ سیاست دان اور کھلاڑی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے. کھلاڑی ہمیشہ ہی جارحانہ موڈ میں رہتا ہے. جبکہ سیاست دان ماحول کے مطابق اپنا ردعمل دیتا ہے. وہ دیکھتا ہے.  کہ سیاسی پیچ پر کس طرح سے کھیلنا ہے. اس کا عوام کی نبض ہر ہاتھ ہوتا ہے. موجودہ حکومت بہت ہی عمدہ کھیل رہی ہے. اس نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط کے تحت سمجھوتہ کیا ہے. جس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں عوام کے سامنے آ رہے ہیں. ابھی مزید مہنگائی کا طوفان آنے کو ہے. اس صورت حال میں موجودہ حکومت نے موقع غنیمت جانتے ہوئے. قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے سے دو تین روز قبل اسمبلیوں کی تحلیل کا پروگرام تشکیل دیا ہے. تاکہ انتخاب نوے روز بعد ہو. موجودہ حکومت کی خواہش ہے. کہ نگران وفاقی حکومت زیادہ سے زیادہ عرصہ قائم رہے.  اس دوران ہکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کیسز اینے حتمی انجام کو پہنچے. اور انہیں مختلف کیسز میں کڑی سے کڑی سزا دی جائے. اس سلسلہ کا آغاز سانحہ 9 مء سے ہو چکا ہے. رہی سہی کسر ان کے رفقائ￿  اور دوست احباب پوری کر رہے ہیں. جو آئے روز نئے انکشافات کر رہے ہیں. گزشتہ روز ان کے قریبی دوست اور پرسنل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر کے بارے میں عجیب و غریب انکشاف کیا ہے. ان کے بقول ایسا کوئی سائفر نہیں تھا. مگر عمران خان نے کہا. کہ سائفر کی من گھڑت کہانی بنا کر عوام میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں. بقول ان کے میں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا. مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی. اور عوامی جلسہ عام میں اینی جیب سے خالی کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر عوام کے جذبات کو بھڑکایا. اور انہیں امریکہ کے خلاف کیا. ان کے اس فعل سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی. حکومت وقت جو عمران خان دشمنی میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی. اس نے اعظم خان کے اعترافی بیان کو بنیاد بنا کر عمران خان پر آرٹیکل 6 لگانے کی شنید سنا دی ہے. ان کے بقول جھوٹا سائفر جس کو بنیاد بنا کر قومی اسمبلی تحلیل کی گئی تھی .اور دو دوست ممالک کے درمیان غلط فہمی پیدا کی. اس فعل کو کسی صورت معاف نہیں کرنا چاہیے. عمران خان نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے. جس کا اس ملک و قوم کو لامتناہی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے. ان کی ناعقلی کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے. اگر عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدہ سے انحراف نہ کیا جاتا. تو آج ہماری معاشی حالت بہت بہتر ہوتی. مگر کیونکہ عمران خان کے تعلقات افواج پاکستان سے کشیدہ ہو چکے تھے. اس لیے انہوں نے ملک پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہچانے کی کوشش کی. آئی ایم ایف معاہدہ سے انحراف، سائفر کی من گھڑت کہانی اور سانحہ 9 مئی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں. موجودہ حکومت شاید بروقت الیکشن کروانے پر کبھی آمادہ نہ ہوتی. کچھ عرصہ قبل یہ آوازیں حکومتی اتحادیوں اور خود حکومتی وزرائ￿  کی طرف سے سننے کو مل رہی تھیں. کہ آئینی ترمیم کے ذریعہ سے قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے. جب تک ملک کے معاشی حالات بہتر نہیں ہو جاتے. تب تک الیکشن میں نہیں جایا جائے گا. آئی ایم ایف کی شرائط اور عمران خان کے ملکی اسٹیبلشمنٹ سے کشیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے. موجودہ حکومت نے فی الفور الیکشن میں جانے کو اپنے لیے بہتر گردانہ ہے. اس طرح سے وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہے. ایک طرف وہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرط کو پورا کرنا چاہتی ہے. تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر عمران خان کا شکار کرنا چاہتی ہے. اگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئ. تو پاکستان تحریک انصاف کا مکمل صفایا کر دے گی. عمران خان کی ناسمجھی نے وہ کام کر دکھایا ہے. جو ان کا سیاسی حریف بھی نہیں کرسکتا تھا. انہوں نے ہر موقع پر اینے پاؤں پر کلہاڑی خود ماری ہے. جس کا خمیازہ ان کے سیاسی رفقائ￿  کو بھی اٹھنا پڑا. اسی سبب ان کے دوست ایک ایک کر کے انہیں داغ فراغت دیتے جا رہے ہیں. پنجاب میں جہانگیر ترین نے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی ہے. جس میں پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف کے نامور کھلاڑیوں نے شمیولیت اختیار کر لی ہے. اسی طرح سے خیبر پختون خواہ میں پرویز ختک کی قیادت میں ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم لیا ہے. جس میں پاکستان تحریک انصاف خیبر پختون خواہ کے متعدد رہنما نے شرکت اختیار کر لی ہے. اس سیاسی صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف شدید مشکلات سے دوچار ہے. جس کا فائدہ موجودہ حکومتی اتحاد ہر صورت اٹھنا چاہتا ہے. اس لیے اس نے الیکشن کا طبلے جنگ بجا دیا ہے. اگست میں قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی . ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی شروع ہو جائے گی. عوام مہنگائی کے طوفان کو بھول کر اینے اینے پسندیدہ امیدوار کو کامیاب کروانے میں مصروف ہو جائے گی. نء حکومت کی تشکیل کے دو سال بعد تک عوام مہنگائی کی چکی میں پستی رہے گی. یہ بول کر کہ اس حکومت کو ابھی کچھ عرصہ ہی ہوا ہے. اقتدار سنبھالے ہوئے. اس طرح سے حالیہ مہنگائی سے خود کو بری الذمہ قرار دلوانے میں بھی مدد ملے گی. الیکشن کا انعقاد موجودہ حکومت کے لیے ہر صورت سود مند ہے. اس لیے یہ اس موقع غنیمت کو اینے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتی. دوبء میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی یہی طے ہوا ہے. کہ ملک بھر میں بر وقت الیکشن کروائے جائے. اور جس سیاسی جماعت کو عوام کا اعتماد حاصل ہو. وہ ہی حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھال کر ملک پاکستان کو اس معاشی دلدل سے باہر نکالے. دونوں رہنماؤں نے اپنی آیندہ نسل کے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرتے ہوئے. آیندہ الیکشن میں انہیں اہم ترین عہدہ پر تعنیات کرنے کا اعادہ کیا ہے. ان کی خواہش ہے. کہ ان کی زندگی میں ہی ان کی آیندہ نسل ملکی بھاگ دوڑ سنبھال لے. شاید یہ بھی  طے پا گیا ہو. کہ آدھی مدت کے لیے محترمہ مریم نواز شریف وزیراعظم پاکستان بن جائے. اور باقی آدھی مدت کے لیے بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کا منصب سنبھال لے. اسی لیے ہر طرف خاموشی چھا گئی ہے. سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی آمد کا بھی کوئی شور نہیں. شاید وہ باہر بیٹھ کر ملکی الیکشن کی نگرانی کے فرائض سر انجام دے گے . کیونکہ ان کی طرف سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار محترمہ مریم نواز شریف ہے. اسی طرح سے سابق صدر آصف علی زرداری کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری آیندہ وزیراعظم کے مضبوط ترین امیدوار ہے. اس پر مولانا فضل الرحمان نے شدید تنقید کی. ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا گیا. جس پر سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سعودیہ میں انہیں ملاقات کی دعوت دی. تاکہ انہیں بھی آیندہ سیاسی سیٹ اپ میں شامل کیا جاسکے. سیاسی بندر بانٹ بھی آیندہ الیکشن کی نوید سنا رہی ہے. الیکشن کا بروقت انعقاد ملک کے لیے خوش آیندہ ہے. عوام کو چاہیے. کہ وہ اس بار حقیقی نمائندہ حکومت کا انتحاب کرے. جو عوام کو درپیش مسائل سے مکمل طور پر آگاہ ہو. وہ ان مسائل کے حل بارے سنجیدہ کاوش کرے. ایک عوامی حکومت ہی ملک کو مسائل کی دلدل سے نکال باہر کر سکتی ہے. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے. کہ وہ اس ملک وقوم پر اپنا خاص کرم فرمائے.

ای پیپر دی نیشن