اسلام آباد+راولپنڈی (خبرنگار خصوصی + اکمل شہزاد سے ) وفاقی وزیر ہوابازی اور ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اگر آپ نے پی آئی اے کو ری اسٹرکچر نہیں کیا تو یہ ایک، ڈیڑھ سال کے اندر بند ہوسکتی ہے۔قومی اسمبلی کے الوداعی سیشن کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ بھارت نے اپنے8 ایئرپورٹس کو آٹ سورس کردیا ہے، استنبول ایئر پورٹ، مدینہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ سمیت بے شمار آٹ سورس ایئر پورٹس کی مثال دی جا سکتی ہے۔ آٹ سورسنگ کا مطلب بیچنا یا گروی رکھنا نہیں ہے، کوئی ملازم بے روزگار نہیں ہوگا،تمام مراعات اسی طرح سے ملتی رہیں گی۔ وزیر ہوا بازی نے کہا کہ پاکستان کے ایئرپورٹس کو جی ٹی اے کا اڈا بنانے سے ہمیں گریز کرنا ہوگا، دنیا کی پیروی کرنی ہوگی، ریاست کو وہ دبا بالکل نہیں لینا۔ لوگ چاہتے ہیں ان کے کھانچے چلتے رہیں، کھانچے چلتے رہے تو ملک نہیں چلنا، سعد رفیق نے کہا کہ ہم ڈوب رہے ہیں، ہمارے ادارے ڈوب رہے ہیں، اس کی وجہ گندی سیاست ہے، جہاں دس لوگوں کی ضرورت ہے، وہاں50لوگوں کو بھردیا گیا ہے، اس ملک کو برباد کرنے کی دردناک داستان ہے، بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے کھانچے چلتے رہیں، اگر کھانچے چلتے رہے تو پھر ملک نہیں چلنا، ذاتی طور پر اداروں کی نجکاری کرنے کا حامی شخص نہیں ہوں۔ اگر پی آئی اے اسی طرح چلتی رہی تو2030 میں اس کا خسارہ 259 ارب کا ہوگا، اس سال خسارہ80ارب ہے۔ پی آئی اے کو نجکاری کے راستے پر ڈال کر جائیں گے، آنے والی حکومت اس کو مکمل کرے گی۔ بچنے کے لیے ہمیں وہی کرنا ہوگا جو سائوتھ افریقین ایئرلائن اور ایئر انڈیا نے کیا ہے، ٹاٹا نے ایئر انڈیا کے لیے450 نئے جہازوں کا آرڈر دیا ہے، ریاست نہیں چلاسکتی۔ پی آئی اے کی ایک ہولڈنگ کمپنی بنے گی، اس کا قرضہ740ارب روپے ہے وہ جائے گا، صرف 27، 28 جہاز آپریشنل ہیں، آپ گلف کی طاقتور ایئرلائنز کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اگر آپ نے پی آئی اے کو ری اسٹرکچر نہیں کیا تو یہ ایک، ڈیڑھ سال کے اندر بند ہوسکتی ہے، میں یہ بیان ذمے داری کے ساتھ دے رہا ہوں۔ کوئی ناراض ہوتا ہے تو اس کو ہونے دیا جائے لیکن پاکستان کے ریاستی اداروں کو بچائیں۔ پی آئی اے کے روٹس قیمتی ہیں، سابق وزیر غلام سرور خان کے احمقانہ اور جاہلانہ بیان کی وجہ سے پی آئی اے کو ہر سال70ارب روپے کا چونا لگا۔3 مہینے میں برطانیہ کے لیے فلائٹس بحال ہوجائیں گی۔ اس کے بعد یورپی یونین اور امریکا کے لیے فلائٹس بحال ہوں گی۔35، 40 یا 50 فیصد جو بھی آنے والی حکومت فیصلہ کرے گی، اتنا نجی شعبے کو لانا پڑے گا، اسی طرح ریلوے کے بھی پروڈکشن یونٹ سب خسارے میں ہیں، ان میں بھی آپ کو صنعت کاروں کو لانا پڑے گا۔ایک فیصد بھی نہیں بکے گا ، 25یا30سال کیلئے ایک کنٹریکٹر آئے گا جو حکومت کو ایک رقم دے گا جو بھی طے ہو گی اور پھر کچھ ہر سال حکومت کو دے گا۔ یہاں پر انویسٹمنٹ کرے گا ایئر پورٹس کو انٹرنیشنل سٹنڈرڈ کے مطابق بنائے گااور جب ٹائم پورا ہو گا وہ چلا جائے گا، پھر دوسرا آئے گا، اسلام آبا د ایئر پورٹ کو سب سے پہلے آئوٹ سورس کیا جائے گا،بارہ دنیا کے بہترین کمپنیاں آچکی ہیںہماری کوشش ہے ہم جانے سے پہلے آر ایف پی دیں جائیںیعنی اخبارات میں اشتہار دے دیں کہ ہم اس کی یہ آفر کر رہے ہیں۔ ایک سال کوشش کی ہے کہ پی آئی اے کو کسی نہ کسی حد تک بحال کریں لیکن بزنس پلان میں ہمیں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی، جو جہاز پہلے لیز پر دیئے گئے ہیں وہ بھی واپس مانگے جا رہے ہیں، ایئر انڈیا ٹوٹ گئی تھی تو انہوں نے ٹاٹا کے حوالے کیا۔ سائوتھ افریقہ کی ایئر لائن کے سات جہاز رہ گئے تھے انہوں نے بھی پرائیوٹ فرم کو ساتھ لیکر آئے آپ کو پی آئی اے کے اندر پرائیویٹ سیکٹر کو لانا ہی ہوگا ، ہمارے پلس پوائنٹ میں ہمارے روٹس اور 24 کروڑ عوام ہیں جو اوورسیز پاکستانی ہے وہ پی آئی اے کو ترجیح دینا چاہتے ہیں شرط یہ ہے کہ پی آئی اے ڈیلیور کرے۔ مظفر آباد ایئر پورٹ کو بغیر پلان بنا دیا گیا جب کہ معلوم تھا کہ یہ نہ بڑا ہو سکتا ہے نہ کمرشل فلائٹ اتر سکتی ہے ، پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے جو روڈ میپ بنا کر جارہے ہیں اگر اسی پر عمل کیا جائے تو ایک سال میں ہو جائے گی یا دوسال میں آج سے آگے تین سال میں پی آئی اے ترقی کی فضا کو چھو رہے ہو گی۔