ہماری خوشیاں کیوں رْوٹھ گئیں

شہباز حکومت کو ایک بنیادی حقیقت کا احساس تک نہیں ہورہا اور وہ یہ کہ خلق خدا کی اکثریت کے خیال میں وہ فروری 2024ء کے انتخابات کی بدولت ہی برسراقتدار نہیں آئی۔ عام آدمی اس کے اقتدار کے دنوں کا شمار اپریل 2022ء سے کرتا ہے جب عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ 2022-23ء اور 2023-24ء کے مالیاتی سالوں کے بجٹ اسی حکومت نے تیار کئے تھے۔ رواں برس کے جون میں منظور ہوا بجٹ موجودہ حکومت کا اصولی طورپر اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا نہیں بلکہ تیسرا بجٹ ہے۔
پارلیمانی طرز حکومت میں پانچ سال کی آئینی مدت کی حامل برسراقتدار جماعت عموماََ اپنے پہلے دو سالوں میں ملک کو درپیش اقتصادی بحرانوں کے حل کے لئے ’’سخت‘‘ بجٹ پیش کرتی ہے۔ اس تناظر میں غور کریں تو پاکستان مسلم لیگ (نون) ریاست کو دیوالیہ ہونے  سے بچانے کے نام پر ایک نہیں دو بجٹ پیش کرچکی ہے۔ دو اڑھائی سال کی ’’سختی‘‘کے ذریعے اقتصادی صورتحال کو مستحکم کرنے کے بعد حکومتیں عوام کو ریلیف پہنچانا شروع ہوجاتی ہیں۔ شہباز حکومت نے مگر رواں برس جو تیسرا بجٹ پیش کیا ہے وہ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والوں سے کم از کم مزید تین برس تک صبروتحمل کا متقاضی ہے۔ اپنے گھر پر آیا بجلی کا بل دیکھتے ہی لیکن ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر حکمران اداروں اور افراد کے اجلاس دیکھتے ہیں تو وہاں کا شاہانہ ماحول ہمارا خون جلانا شروع ہوجاتا ہے۔
سخت گرمی اور حبس کے ناقابل برداشت موسم میں وزیر اعظم سمیت تمام وزراء  قیمتی شرٹس پر بھڑکیلے رنگوں کی ٹائیاں لگائے برانڈڈ سوٹس پہنے کسی اجنبی اور سرد ملک کے حکمران نظر آتے ہیں۔ ان پر نگاہ ڈالنا ہی انگریزی محاورے والی ’’وہ اور ہم‘‘ والی تقسیم اجاگر کردیتا ہے۔ اہم وزراء اور سرکاری افسروں سے عرصہ ہوا میں نے میل ملاقات ترک کررکھی ہے۔ کسی سماجی تقریب یا مشترکہ دوستوں کے ہاں البتہ ملاقات ہوجائے تو ان کی گفتگو عوام پر مسلط ہوئے مہنگائی کے عذاب کی شدت سے غافل سنائی دیتی ہے۔ روزمرہّ زندگی کی مشکلات میں جکڑے پاکستانیوں کے ساتھ حکومتی سطح سے پرخلوص مکالمے کی کوئی راہ ہی نہیں نکالی گئی۔ کسی نوعیت کا مکالمہ ہورہا ہوتا تو لوگوں کو شاید یہ گماں نصیب ہوجاتا کہ کسادبازاری اور کامل اداسی کے موجودہ موسم میں حکمران نہ صرف ہماری مشکلات کی بابت باخبر ہیں بلکہ ہمارا دل رکھنے کی خاطر ’’شاہانہ‘‘ رویہ اختیار کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ عوام کے دْکھوں سے کامل بیگانگی کو نمایاں کرتا رویہ مگر اب لوگوں کے دلوں میں غصہ کو انبار کی صورت جمع کرنا شروع ہوگیا ہے۔
اپنی قوت بینائی برقرار رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ میں دن میں تین بار آنکھوں کی نمی برقرار رکھنے کے لئے دوائی کے قطرے ڈالوں۔ اس حوالے سے سب سے بہتر دوائی 2022ء کے بجٹ کے بعد مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ طویل وقفے کے بعد مارکیٹ میں لوٹی تو اس کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوچکا تھا۔ اہم بات یہ بھی تھی کہ تین گنا اضافے کے باوجود مذکورہ دوا کی مقدار تقریباََ آدھی کردی گئی۔ اس کے استعمال کا عادی ہوچکا تھا۔ دل کڑاکر کے اسے خریدنے کو لہٰذا مجبور بھی۔ گزشتہ تین ہفتوں سے مگر وہ دوا ایک بار پھر مارکیٹ سے غائب ہوچکی ہے۔
ہفتے کی صبح اخبارات کا پلندہ ختم کرنے کے بعد میں نے خود ادویات کی ان دوکانوں میں جانے کا فیصلہ کیا جن کے مالکان سے میں گزشتہ کئی برسوں سے شناسا ہوں۔ پہلی دوکان پر پہنچا تو اس کے مالک جو انتہائی نفیس اور ٹھنڈے مزاج کے حامل ہیں میرا مسئلہ سننے کے بجائے کا?نٹر سے باہر نکل آئے اور تقریباََ چیختے ہوئے استفسار کرنا شروع ہوگئے کہ وطن عزیز میں ’’برکت‘‘ کیوں ختم ہوگئی ہے۔ ’’2018ء تک‘‘بقول ان کے ’’پاکستان کے غریب تر لوگ بھی مطمئن نظر آتے تھے۔ اب کسی بھی چہرے پر خوشی نظر کیوں نہیں آرہی؟‘‘ہذیان کے عالم میں اٹھائے ان کے سوالات کامیرے پاس جواب موجود نہیں تھا۔ خاموشی اور احترام سے سنتا رہا۔ چند لمحوں بعد مگر یہ احساس بھی ہوا کہ میں حکومت نہیں عام شہری ہوں۔ حکمرانوں کی خطا?ں کا جواب کیوں دوں۔ یہ بات مگر اپنے دل ہی میں رکھی۔
ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجانے کے بعد میں نے اپنا مسئلہ پیش کیا۔ جس دوائی کی مجھے طلب تھی اسے ڈھونڈنے کے لئے انہوں نے چار پانچ لوگوں کو فون کئے۔ وہ مگر کسی سٹور میں موجود نہیں تھی۔ بالآخر انہوں نے مجھے تین متبادل دوائیاں بتائیں۔ ان کی قیمت سوسے پانچ سو روپے کے درمیان تھی۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ وہمی بڈھوں کی طرح سوال کرتا رہا کہ جو دوائی وہ میرے لئے چن رہے ہیں آنکھ کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے نقصان تو نہیں دے گی۔ میرے سوال کا وہ برامان گئے۔ آنکھوں کے ایک معروف ڈاکٹر کوفون ملایا اور میری بات کروائی۔ ڈاکٹر صاحب نے اطمینان دلایا کہ فی الحال مجھے اسی دوا ہی سے کام چلانا ہوگا۔
ایک ذاتی اور معمول کے مطابق ہوئے واقعہ نے مجھے بہت کچھ سوچنے کو مجبور کیا ہے۔ اولیں بات تو یہ کہ ملک کے معاشی حالات نے نظر بظاہر ایک متمول دوکاندار کو بھی ہذیانی بنادیاہے۔ دوسرا یہ کہ ڈالر کی قیمت اور درآمدات پر لگائی پابندیوں کی وجہ سے کئی ایسی ادویات بازار سے غائب ہوگئی ہیں جو لاکھوں افراد کو ہر صورت درکار ہیں۔ ادویات کی نایابی کا مسئلہ اخبارات میں تاہم کبھی کبھار اجاگر ہوتا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پراس حوالے سے محض ٹکر چلاکر خانہ پوری ہوتی ہے۔ حکومتی قواعد وضوابط کی بدولت محتاط سے محتاط تر ہوتے میڈیا کی مجبوری سمجھی جاسکتی ہے۔ بے باک سوشل میڈیا بھی لیکن اب ایسے ’’بیانیہ‘‘ کا اسیر ہورہا ہے جو عام شہری کی پاکستان کی ریاست اور یہاں کے حکمرانوں سے بڑھتی ہوئی بیگانگی کو کماحقہ انداز میں پیش نہیں کرتا۔ ان دنوں بکنے والا سودا صرف ایک ہے اور وہ ہے سپریم کورٹ کے 8عزت مآب ججوں کی جانب سے ’’آئین کی برتری‘‘ کے لئے دکھائی جرات وبہادری۔ اپریل 2007ء سے نومبر2007ء کے درمیانی مہینوں کے دوران بھی مجھ جیسے سادہ لوح افتخار چودھری کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کے ذریعے ’’ریاست کو ماں‘‘ بنانے کے خواب دیکھتے تھے۔ بالآخر چودھری صاحب بحال ہوگئے۔ ریاست مگر ماں جیسی نہ بن سکی۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ اب کی بار ہمارے عزت مآب ججوں کی ثابت قدمی کی بدولت آئین کی برتری بالآخر قائم ہوہی جائے۔

ای پیپر دی نیشن