اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سابق نگران وزیر تجارت، پیٹرن انچیف ’’آپٹما‘‘ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا کہ حکومت ایک پاور پلانٹ سے سب سے زیادہ مہنگی بجلی 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے خرید رہی ہے، حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے، جبکہ ونڈ اور سولر پلانٹس سے 50 روپے فی یونٹ سے اوپر میں بجلی خریدی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بتایا کہ صلاحیت کے 20 فیصد سے کم پیداوار پر آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی گئی، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادا کرچکی ہے، دوسرے پاور پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کئے گئے، تیسرے پاور پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اس طرح صرف تین پاور پلانٹس کو 370 ارب روپے ادا کر دیئے گئے۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا صرف سستی ترین بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کے لیے معاہدے کیے جائیں، تمام آئی پی پیز کو کسی بھی دوسرے کاروبار کی طرح مرچنٹ پلانٹس کے طور پر سمجھا جانا چاہیے، پاور پلانٹس 52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں اور 28 فیصد پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے، اپنے ملک کو بچانے کے لیے 40 خاندانوں کے ساتھ کئے گئے ان معاہدوں کے خلاف سب اٹھیں۔ سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ ان منہگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگی 1.95 ٹریلین روپے (1950 ارب روپے) ہے، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے اور دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کر رہی ہے جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے، یہ صرف تین پلانٹس کے لیے 370 ارب روپے بنتے ہیں۔ ایک سال میں کئی ہزار ارب اضافی بل دینے والی قوم رو رہی ہے۔ گھریلو صارفین آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے سبب ماہانہ ہزاروں روپے بل دے رہے ہیں۔ بند پاور پلانٹس پر اربوں روپے ماہانہ چارجز لینے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے، اگر ہم صرف 200 ارب روپے کے ایک گروپ کے کیپیسٹی چارج کو تیار کردہ بجلی میں تبدیل کر دیں تو پاکستان کے تمام تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کم ہو کر 10 فیصد تک آ سکتا ہے، حکومت کی نیت ٹھیک ہو تو 60 روز میں بجلی سستی ہو سکتی ہے۔
حکومت ایک پلانٹ سے 750 روپے یونٹ بجلی خرید رہی، ان معاہدوں کیخلاف سب اٹھیں: گوہر اعجاز
Jul 22, 2024