اسلام آباد‘ سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے سیاسی نہیں بلکہ آئینی اور قانونی ہونے چاہئیں۔ عدلیہ کی ذمہ داری قانون کی تشریح کرنا ہے‘ قانون سازی نہیں۔ عدلیہ کے اتنے سیاسی فیصلے ہیں کہ گنتی ختم ہو جاتی ہے۔ ججز عدالتوں میں بیٹھ کر جو سیاسی ریمارکس دیتے ہیں اس کی آمیزش نہیں ہونی چاہئے۔ جسٹس منیر والا فیصلہ بھی سیاسی تھا اور بھٹو والا فیصلہ بھی۔ موجودہ فیصلے کے بعد جو صورتحال ہوئی اس سے آئینی خرابی ہو سکتی ہے۔ استحکام لانا صرف سیاستدانوں کی ذمہ داری نہیں‘ عدلیہ‘ میڈیا‘ بیوروکریسی پر بھی ہے۔ عدلیہ کو اپنا وجود بحال کرنا چاہئے۔ عدلیہ کی چپقلش کے افسانوں کا ذکر گلی محلوں میں ہو رہا ہے۔ آرٹیکل 209 توہین عدالت غلط فیصلے دینے والوں پر بھی لگنا چاہئے۔ افغانی احسان فراموش ہیں، اس وقت چالیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ کیا جرمنی واقعہ کے بعد میزبانی بنتی ہے؟۔ علاوہ ازیں خواجہ آصف نے حکومت کے خاتمے کی افواہوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی تاریخ میں رونما ہونے والے حادثات کے نتیجے میں بننے والی غیر جمہوری اور حادثاتی حکومتوں سے جنم لینے والی نسل کسی حادثے کے انتظار میں ہر وقت شیروانی سلوا کر تیار بیٹھتی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ آج کل بہت پریس کانفرنسیں اور ٹی وی شوز ہو رہے ہیں، وطن عزیز کی سیاست نے 75سال میں بے شمار حادثات کو جنم دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب حالات میں بے یقینی ہوتی ہے تو وہ نئی سیاسی جماعتیں، پریس کانفرنسیں، ٹی وی پر منہ دکھائی کی بھرمار شروع کر دیتے ہیں اور قبلہ رخ پنڈی کی طرف کر لیتے ہیں۔ خواجہ آصف نے اپنی ٹویٹ میں معروف شاعر افتخار عارف کی نظم بارھواں کھلاڑی کے چند اشعار بھی شیئر کیے۔ دریں اثناء خواجہ آصف نے کہا کہ شفقت محمود کی سیاست پیپلزپارٹی سے شروع ہوئی پھر مشرف سے ہوتی ہوئی شہباز شریف اور پی ٹی آئی پر ختم ہوئی۔ شفقت محمود کو 1964ء سے جانتا ہوں، مجھے ان سے 50/55 سال قریبی دوستی کی غلط فہمی بھی رہی۔ بانی پی ٹی آئی کی کابینہ نے مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا تو موصوف نے میرے خلاف دھواں دھار پریس کانفرنس کی۔ میرے اقامے اور بیرون ملک تنخواہ کو اس کی وجہ بتایا۔ میں نے ایف آئی اے کی انکوائری بھگتی۔ لوگ تو پہچانے گئے لیکن نصف صدی لگی۔ جب وہ شہباز شریف کے ساتھ تھے تو عمران خان کے خلاف بڑی اچھی انگریزی میں کالم لکھتے رہے۔ مشکل وقت میں تعلق نبھانا، ڈی این اے میں وفاداری اور حوصلہ ہونا اللہ کی عطا ہے۔