صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا

10 محرم الحرام کاسوگوار دِن گذر چکا ہے۔یہ دِن حضرت امام حسین کو کربلا میں پیش آنیوالے مصائب و آلام کے تذکرے کا دِن ہے کہ صدیاں بیت گئی ہیں مگر آج بھی نواسہ رسولؐ کے مصائب کا ایک ایک لمحہ زندہ ہے اور جن حالات میں امام ِعالی مقام کی شہادت ہوئی اْن کا ذکر نہ صرف اْمت ِ رسول کو آبدیدہ کرتا ہے بلکہ دْنیا بھر کے درد مند غیر مسلم بھی حضرت حسین پر کئے گئے ظلم وبربریت پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔اْس دِن یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب بھی کربلا میں گذرنیوالے اْن لمحات کے دْکھ میں جی رہے ہیں۔ یہ دِن مکہ سے کربلا تک نواسہ رسول کے سفر کی دِل دہلا دینے والی کہانی کو دہرائے جانے کا دِن ہے۔یہ دِن اٹھارہ ہزاربے حس کوفیوںکی جفا اور بے مروتی کادِن ہے جو اب قیامت تک کیلئے دھوکے اور دغا کی علامت بن چکے ہیں۔ یہ بائیس ہزار کے لشکر کے سامنے ڈٹ جانیوالے حسینی قافلے کے 72 فدائیوں کی اِستقامت کو سلام پیش کرنے کا دِن ہے جو کربلا کی تپتی ریت پر خیمہ زن ہو ئے اور اسلام کی عظمت و حرمت کیلئے قربان ہو گئے۔ یہ دِن اہل بیت کے ننھے ننھے تشنہ لب بچوں کا دِن ہے جو ایک ایک قطرہ پانی کیلئے تڑپتے رہے اور میدانِ مہرووفا میں اَمر ہوگئے۔ یہ دِن باپردہ بیبیوں کا دِن ہے جو بھوک و پیاس سے نا تواں اپنے قائد اور سالار کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔یہ دِن پاک بیبیوں کے کربلا سے شام تک کیتکلیف دہ سفر کا دِن ہے۔ یہ دِن بے وطنی کے کرب ناک احساس کا دِن ہے۔10 محرم کا دِن دْنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے پناہ دْکھ کا دِن ہے جب خود کو مسلمان کہنے والے لوگوں کے ہاتھ اہل بیت کے خون سے رنگے گئیاور رہتی دْنیا تک اْمت کیلئے ایک خفت کا سبب ہوگیا کہ ظالموں کے ہاتھ سے اہل بیت تک محفوظ نہ رہے۔ یہ دِن ظلم و بربریت کیخلاف جدوجہد کوکامل کرتا ہے اور ہماری اسلامی تاریخ پر اَنمٹ نقوش چھوڑتا ہر سال اسلامی سال کی ابتداء￿  میں زخم تازہ کرتا ہواگذر جاتا ہے۔
وقت کے ظالم اور مظلوم کے درمیانیہ معرکہ 10 محرم الحرام کو اختتام پذیر ہوا۔اِس معرکہ ظلم و ستم میں اگر کوئی رْستم زماں بھی ہوتا تو اْس کے حوصلے عددی اعتبار سے کئی گنابڑے لشکر کے سامنے پست ہو جاتے مگر نواسہ ِ رسولؐ کو نہ تو مصائب کا ہجوم اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا اور نہ ہی دشمن کا لشکر اْن کے عزم و اِستقلال کو زِیر کر سکا۔ حق وصداقت کی تصویر نواسہ رسول نہ تو مصائب کی گھٹا ٹوپ گھٹائوں کے سامنے حوصلہ ہاریاور نہ ہی اْنکے پائے ثبات میں کوئی لغزش آئیہ اْنھوں نے راہِ حق میں آنے والے آلام کا خوش دِلی سے خیر مقدم کیا۔ اپنا گھر لٹاناتسلیم کیا۔ اپنا اوراپنے معصوموں کا خون بہانا منظور کیا مگر اِسلام کی توقیر پر حرف آجائے یہ قطعی طور پرمنظور نہ کیا۔
تاریخ کے اوراق میں اِس شہادت ِعظمی کا اور اِس دن کا ذکر قریب قریب ایک طرح سے کیا گیا ہے اور بیشتر مورخین نے اِس پر اتفاق کیا ہے۔ ظلم اور بربریت کے واقعات جو 10 محرم الحرام کو پیش آئے وہ شاید دْنیامیں جنگوں کی تاریخ میں سننے کو نہ ملیں کہ جنگ کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہے۔ جنگ کی اخلاقیات  میں لاشوں کی بے حرمتی نہیں ہوتی۔جنگ کی اخلاقیات میں بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو محفوظ رہنے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ جنگ کی اخلاقیات میں پاک دامن اور باپردہ عورتوں کی بے توقیری نہیں کی جاتی۔ کربلا کا معرکہ  شروع ہوتے ہی حضرت امام حسین کے مختصر سے لشکر سے لوگ لڑائی کیلئے نکلتے اور لمحوں میں ہی شہید کر دیئے جاتے۔ حضرت امام حسین کے جواں سال بیٹے علی اکبر میدان میں آئے تو دشمن کے لشکر نے اِن پر حملہ کر دیا۔ علی اکبر دشمن پر وار کرتے جا رہے تھے اور شجاعت کے جوہر دِکھا رہے تھے۔ ناگاہ وہ نیزے کے ایک وار سے زمین پر آگرے اور دشمن کے لوگوں نے تلواروں سے اْن کے ٹکڑے کر دیے۔غم سے چْور حضرت امام حسین بیٹے کی لاش کے ٹکڑوں کو جمع کرکے خیمے میں لے جا تے رہے۔ علی اکبر کے بعد حضرت امام حسین کے دیگر رفقاء بھی ایک ایک کرکے میدانِ کارزار میں نکلتے ، اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے اور جان اپنے خالق حقیقی کے سپرد کرتے جاتے۔ 10 محرم الحرام کے معرکے میں آخری جانبازسالارِ لشکر امام ِ عالی مقام خود تھے جو زخموں سیچْور چْور تھے لیکن انتہائی بہادری سے لڑ رہے تھے اور اپنے رفقاء لے لاشے اْٹھارہے تھے۔ یزید کے لشکر کے لوگ حضرت حسین پر حملہ آور ہوئے۔ کسی نے آپکے بازو پر تلوار سے ضرب لگائی تو کوئی آپ کا سر کاٹنے کیلئے آگے بڑھا۔یوں نواسہِ رسول کو انتہائی بے بسی اور کسمپرسی کے عالم میں کربلا کے میدان میں شہید کر دیا گیا اور آپ کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد قافلہِ حسین کی جانب سے جنگ اختتام کو پہنچ گئی۔کربلا کی جنگ میں آپکے ساتھ 72 شہادتیں ہوئیں۔ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے 18 آپکے رشتہ دار اور خاندانِ بنو ہاشم کے افراد تھے۔ شہادتِ حسین کے بعد شامِ غریباں اور اْنکے خاندان کیلئے زیادہ مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔پردہ داربیبیوں کو تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ آلِ رسولؐ کو کربلا و شام کی گلیوں میں عبرت کے نشان کے طور پر دِکھایا گیا۔اور یوں آج تک 10 محرم الحرام کو ہر سال دْنیا میں موجود کروڑوں مسلمان کربلا کے واقعے کے کرب سے گزرتے ہیں۔
10 محرم الحرام کو حسین ابن علی کی شہادت کا واقعہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ پختہ ایمان اور لازوال قربانی کی ایک عظیم مثال ہے۔ اِس دلخراش واقعے کے بعد12 محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی تدفین کر دی گئی۔ بعد ازاں عباسی خلیفہ صفاح نے مقبرہِ حسین تعمیر کیا اور اْس کا ایک خوبصورت گنبد تیارکروایا۔ آج تک کربلا اور کربلا میں دی گئی عظیم قربانی زندہ ہے اور یقینی طور پر رہتی دْنیاتک  زندہ رہے گی۔
ایک پل کی تھی بس حکومت یزید کی
صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا

ای پیپر دی نیشن