معاشی درجہ بندی کے عالمی ادارے فچ نے پاکستان سے متعلق معاشی ،سیاسی اور حکومتی نوعیت کی پیشین گوئی کی ہے، جس کے مطابق موجودہ حکومت 18 ماہ تک قائم رہے گی، حکومت تبدیل ہوئی تو انتخابات نہیں ہونگے اور ٹیکنوکریٹ آئیں گے جبکہ عمران خان مستقبل قریب میں جیل میں رہ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرضے سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آئیگی، مالی سال 2024 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود 20.5 فیصد سے کم کر کے 14 فیصد تک لا سکتا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ روپے کی قدر میں نسبتاً استحکام رہنے کے زیادہ امکانات ہیں، تاہم اس کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے خدشات بھی برقرار ہیں۔فچ امریکن بیسڈ کریڈٹ ایجینسی ہے اس کے علاوہ موڈیز اور سٹینڈرڈ ز پوئر بھی فنانشل رپورٹ جاری کرتی ہیں اور موڈیز پاکستانی معیشت کو مستحکم کہہ چکی ہے جو کہ بالکل نہیں ہے اور اب فچ کے ذیلی ادارے کے مطابق اگر سیاسی استحکام رہا تو پاکستان ترقی کی طرف جا سکتا ہے۔یہ بات بھی قابل غو ر ہے کہ ادارے نے یہ نہیں کہا کہ حکومت 18ماہ قائم رہے گی بلکہ کہا گیاہے کہ اگر سیاسی انتشار پیدا ہوا تو پھر حکومت 18 ماہ ہی چل سکے گی۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ فچ نے کسی ملک میں نئی بننے والی حکومت بارے پیشین گوئی کی اور اس کی فارمیشن بھی بتا دی ہے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجینسیز کسی ملک کی معاشی صورتحال پر رپورٹ جاری کرتی ہیں تو سٹیٹ بینک حکام سے لیکر دیگر ملکی اداروں سے بھی ملاقات کی جاتی ہے جس میں سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ پھر سیاسی خبروں اور سیاسی ملاقاتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کے سیاسی حالات پر بھی ایک رپورٹ مرتب کی جاتی ہے لیکن تیار کردہ رپورٹ شائع نہیں کی جاتی بس ملکی معیشت پر رائے دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ ایک معاشی درجہ بندی کرنے والی ایجینسی کی طرف سے پاکستانی ٹیکنو کریٹ حکومت کی پیشین گوئی کیسے اور کیونکر ہوئی جبکہ فچ کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے اس بارے سوال کیا جاتا کہ ٹیم اس نتیجے پر کیسے پہنچی ،ایسی رپورٹ کیسے پیش کی اور معاشی درجہ بندی کے ادارے نے ایک ملک کے اندرونی حالات پر کیسے تبصرہ کیا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح توقعات کے بر عکس ’’اپنی اپنی ڈفلی اپنے اپنے راگ ہیں بلکہ حکومتی ترجمان ،وزیر و مشیر تو بڑھ چڑھ کر رپورٹ پر تبصرے کر رہے ہیں کیونکہ ذیلی رپورٹ کے بعد حکومتی معاشی بیانیوں کو بھی تقویت ملی ہے۔ درحقیقت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے پاکستانی عوام کو دیوالیہ کر دیا ہے اور کیسے ممکن ہے کہ عوام دیوالیہ ہوں تو معیشت میں بہتری آئے اور ملک ترقی کرے ؟ عمومی طور پر معاشی رپورٹس بیرونی سرمایہ کاروں کے مطالبے پر بنائی جاتی ہیں، تا کہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنی ہے یا نہیں۔ ایسی رپورٹس بنگلہ دیش اور انڈیا سمیت کئی ممالک کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔باایں وجہ اکثر صحافی حضرات ’’فچ رپورٹ ‘‘ سرمایہ کاروں کو بھگانے کی چال بھی قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت پسند جانتے ہیں کہ جو ملک کے معاشی ، سماجی اور سیاسی حالات بن چکے ہیں ایسے میں ہر دوسرا شخص ملک چھوڑ کر جانا چاہتا ہے کیونکہ سانسیں تنگ کرد ی گئی ہیں اور کوئی فریاد بھی نہیں سنتا۔ چونکہ سوشل میڈیا کا دورہے تو ملکی حالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ایسے میں سرمایہ کار یہاں کیوں آئینگے۔ بالفرض آبھی گئے تو فوراً بھاگ جائینگے۔ باقی رہ گئی معیشت کی نائو تو ستر دہائیوں سے ہچکولے کھا رہی ہے کیونکہ روز اول سے ملکی دولت چند خاندانوں نے سمیٹ لی ہے جوکہ اپنی کرسی بچانے اور طاقت کو قائم رکھنے کیلئے خوشامدیوں اور درباریوں پر سارا خزانہ لٹا دیتے ہیں اور عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مزید پاکستان میں جمہوریت نہیں شخصی آمریت ہوتی ہے جسے صرف اپنی کرسی اور مستقبل سے مطلب ہوتا ہے لہذا اگر رپورٹ میں سیاسی حالات بھی بیان کئے گئے ہیں تو یقینا اس کے پیچھے خواہش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ فچ رپورٹ میں واضح ہے کہ اگر سیاسی عدم استحکام ہوا جو کہ ستر دہائیوں سے جاری ہے تو معیشت ڈوب جائے گی۔۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں 24 وزیراعظم آچکے ہیں اور کسی بھی وزیراعظم نے اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کی تقریباً اڑھائی یا تین سال بعد وزیراعظم تبدیل ہوجاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو پانچ ماہ ہو چکے ہیں اور رپورٹ میں 18 ماہ بتائے گئے ہیں یعنی23 ماہ بعد تو یہ تخمینہ ویسے ہی درست ہوجائیگا کیونکہ عوام کے صبر کا پیمانہ ابھی سے لبریز ہوچکا ہے۔ اور جب کار کردگی صفر اور ترجیحات ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہوں تو ادارے تنگ آکر سٹینڈ لیتے ہیں اور تخت الٹ جاتا ہے ! یہی میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ ہمارے ہاں مستقبل کا راستہ نہیں تلاش کیا جاتا بلکہ وقت ٹپائو منصوبے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دائرے کا سفر ہوتا ہے جس کی کوئی سمت یا منزل نہیں ہوتی۔ بس سفر ہوتا ہے اور بجٹ کے بعد یقین ہو گیا ہے کہ واپسی کا سفر شروع ہوگیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بس عوام الناس کو الجھایا گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ مخصوص سیٹوں کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد کی صفوں میں بوکھلاہٹ بڑھ گئی ہے۔ پہلے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کیلئے سر جوڑ لیے گئے پھر اعلیٰ عدلیہ کے بارے مسلسل ہرزہ سرائی جاری ہے اور اب یہ رپورٹ سامنے آگئی ہے جبکہ حالات یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمان دعویٰ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف شفاف انتخابات کیلئے خیبر پخوتنخواہ اسمبلی تحلیل کرنے کو تیار ہے اور حکومت کا کہناہے کہ اگر عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا یعنی سیاسی بازیگروں کو اپنی سیاسی شعبدہ بازیوں سے فرصت نہیں جبکہ عوام بجلی کے بلوں اور ناجائز ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے چیخیں مار رہے ہیں اور میڈیا عوامی مسائل اجاگر کرنے کی بجائے سیاسی بیٹھکیں لگائے بیٹھا ہے جن میں صبح و شام سیاسی بازیگر اور میڈیائی باوے پٹاریاں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں کہ عبوری حکومت آسکتی ہے مگر عمران خان باہر نہیں آسکتا بلکہ بعض تو پھرنعرے لگا رہے ہیں کہ ’’ملک بچائو نواز شریف ‘‘ جبکہ کوئی فیصلہ میاں صاحب کی مرضی کے بغیر تین برس سے نہیں ہوا اور عوام کو ایک روپے کا ریلیف نہیں ملا۔ بس تشہیر ہی تشہیر ہے۔ اگرچہ فچ رپورٹ پاکستان میں مزید معاشی عدم استحکام کا پیغام دے رہی ہے لیکن ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ہم ستر دہائیوں سے سن رہے ہیں کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے ، اندرونی اور بیرونی ملک دشمن قوتیں ملک نہیں چلنے دے رہیں۔ اگر انھیں نہ روکا گیا تو جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی اور ملکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ مگر میں نے کل بھی کہاتھا اور آج پھر کہہ رہی ہوں کہ
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
یقینا ہماری اپنی کمزوریوں کے باعث ہی بیرونی دنیا کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا موقع ملتا ہے اسلئے ارباب اختیار کو چاہیے کہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی تنازعات کا مؤثر حل تلاش کریں اورعوام کی فریاد سنیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر وقت گزر جائے۔