پیر ‘ 15 محرم الحرام 1446ھ ‘ 22 جولائی 2024ء

بجلی بل سب کے لیے مصیبت بن گئے ہیں، اس کا حل نکالنا ہو گا: نواز شریف۔ 
’’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘ کہیں یا ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ والی بات کی جائے کہ بالآخر نواز شریف صاحب کی بھی بجلی بلوں کی  تباہ کاریوں پر نظر پڑ گئی ہے اور اْنہوں نے کہا ہے کہ بجلی بل سب کے لیے مصیبت بن گئے ہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے جو بڑے میاں جی نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے اجلاس میں کہہ کر ثابت کیا ہے کہ انہیں بجلی بلوں کی مصیبت کا احساس ہے جبھی تو اگلے سانس میں کہا کہ ان کا کوئی حل نکالا جائے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر حل نہ نکالا گیا تو اسی بجلی کی وجہ سے کہیں لوگوں کے رد عمل سے ان کی پارٹی کی حکومت کو ہی دیس نکالا نہ مل جائے۔ کیا امیر کیا غریب کیا کسان کیا صنعتکار۔ بزبان ریختہ اہل حرفہ ہوں یا اہل دیہہ۔ سب پر یہ بل حقیقت میں بجلی بن کر گرتے ہیں۔ حال یہ ہو چکا ہے کہ بجلی بل ہاتھ میں پکڑتے ہی ایسا جھٹکا لگتا ہے جیسے کسی نے غلطی سے بجلی کی ننگی تار پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ دو کمروں والے گھروں کا  بل بھی 18 ،20 ہزار سے کم نہیں آ رہا، جن لوگوں نے بڑے چائو کے ساتھ اے سی خریدے تھے اب وہ اتنی ہی پریشانی کے ساتھ اسے فروخت کر کے بل جمع کرانے پر مجبور ہیں۔ اگر لوگوں نے  اپنی  فریجوں میں  عید کا گوشت ٹھونس ٹھونس کر محفوظ نہ کیا ہوتا تو لوگ اپنے فریج اور ڈیپ فریزر بھی فروخت کر رہے ہوتے۔ مگر قربانی کے گوشت نے ہاتھ روکا ہوا ہے۔ اب تو اچھے بھلے گھروں میں بھی بجلی کے فالتو بلب بْجھا دئیے جاتے ہیں۔ ورنہ پہلے تو واپڈا والے اشتہارات میں اپیلیں کرتے پھرتے تھے کے بجلی بچائیں، فالتو بلب بجھائیں۔ اب یہ حال ہوا ہے کہ لوگ خود بلب بْجھا رہے ہیں کہ بل کم آئیں۔ یہ صورتحال جاری رہی تو لوگ پنکھے بھی بند کر کے دستی پنکھوں پر آ جائیں گے اور ہاتھ سے جھلنے والے پنکھوں کا دور پھر لوٹ آئے گا۔ اسے ترقی معکوس کہتے ہیں۔ اس سے ملک کو بچانے کے لیے بجلی  بلوں سے ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار ختم کرنا ہو گی۔ 
٭٭٭٭٭
مری والوں کا کاروبار ختم کرنے نہیں دیں گے۔ پیپلز پارٹی۔ 
 آج کل مری کا حسن بحال کرنے کے لیے وہاں سڑکوں ، بازاروں میں قائم تجاوزات اور کثیر المنزلہ تجارتی مارکیٹوں کو جو قانوں سے بالا بالا قائم کی گئی ہیں، ختم کر کے ملکہ حسن کا اصل چہرہ بحال کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس پر ظاہر ہے تجاوزات مافیا کو تکلیف ہو رہی ہے اور وہ ہائے مر گئے ، لٹ گئے، کاروبار چھینا جا رہا ہے کے نعرے لگا کر یہ آپریشن روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملکہ کوہسار مری ایک خوبصورت تفریحی سیاحتی مقام ہے۔ انگریزوں نے اسے پنجاب کے گرمائی دارالحکومت بنایا تھا جو آہستہ آہستہ تجاوزات اور قبضہ گروپوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کی خوبصورت چند سڑکیں اب گلیاں بن گئی ہیں۔ بے ہنگم تعمیرات نے مری کا اصل حسن گہنا دیا ہے۔ ہر طرف کنکریٹ کا جنگل نظر آتا ہے۔ حقیقی پرکشش نظارے ان عمارتوں کی اْوٹ میں چھپ گئے ہیں۔ اب اگر اس کے حقیقی حْسن کو بحال کیا جا رہا ہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کو ان کے فطری حسن کے ساتھ بحال رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ ذرا اْلٹ ہے۔ اس لئے حکومت پھونک پھونک کر قدم رکھے ورنہ پیپلز پارٹی،شاہد خاقان عباسی و دیگر جماعتیں عوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے بھوسے کے ڈھیر پر ماچس کی تیلی پھینکنے میں ذرا بھر بھی تاخیر نہیں کریں گی۔ ویسے بھی لوگوں کے کاروبار پر ہاتھ ہلکا رکھ کر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر جگہ بلڈوزر چلا کر ہی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ 
٭٭٭٭٭
تحریک عدم اعتماد کیلئے پی پی سے بات تب ہو گی جب میں برسراقتدار آئوں۔ بانی پی ٹی آئی۔
 اب کوئی جا کر کپتان کو سمجھائے کہ ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کیسے کر لیتے ہیں وہ۔ ایک طرف وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ پی پی والوں سے تحریک عدم پر کوئی بات تب ہی ہو گی جب میں برسرِ اقتدار ہوں گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ روز افواہ تھی کہ تحریک انصاف والوں نے حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں پیپلز پارٹی سے مدد طلب کی ہے۔ اب ظاہر بات ہے پی پی مفت میں تو اپنا کاندھا استعمال کرنے کے لیے دینے سے رہی۔ اس کی اپنی ترجیحات بھی ہوں گی مگر آج کپتان نے کہہ دیا ہے کہ اگر اسے حکومت ملتی ہے تو وہ پیپلز پارٹی سے تحریک عدم اعتماد لانے میں مدد طلب کریں گے۔ آج تک نہ کہیں دیکھا نہ سْنا ہے کہ جس کو آپ گالیاں دیں بْرا کہیں اس سے کچھ خیر کی اْمید بھی رکھیں۔ بقول خان اگر نواز اور زرداری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں تو پھر وہ عدم اعتماد کے لیے کس سے بات کریں گے۔ انہیں کس پرامید ہے کہ وہ انہیں اقتدار میں لا سکتا ہے یا لا سکتے ہیں۔ ہمیں تو سمجھ میں نہیں آتا ہاں البتہ بیرسٹر گوہر، شبلی فراز ، اسد قیصر، عمر ایوب وغیرہ ان کے فرمودات کی روزانہ تشریح کرتے کرتے ان کے مبہم الفاظ کے بھی مفصل معنیٰ دریافت کرنے کے ماہر ہو گئے ہیں۔ وہی اس بارے میں روشنی ڈال سکتے ہیں۔ باقی کسی میں تو اتنی عقل نہیں کہ ان کے برسراقتدار آنے کے خیال کی تشریح کر سکے یا اس رمز کو جان سکے۔ ویسے بھی کہتے ہیں ناں ’’گونگے دی رمز نوں گونگا جانے۔ باقی کی باتیں ان کے پارٹی رہنما ہی سمجھ سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
پنجاب کی کابینہ میں مزید 5 ارکان کی شمولیت کا فیصلہ۔ 
نجانے کہاں گئے وہ کابینہ مختصر رکھنے کے دعوے۔ اس وقت پنجاب میں 21 رکنی کابینہ کام کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب ان میں مزید 5 ارکان کو شامل کیا جائے گا۔ جس کے بعد تعداد 26 ہو جائے گی۔ ویسے تو 21 رکنی کابینہ بھی جہازی سائز ہوتی ہے۔ اس میں مزید 5 ارکان شامل ہونے سے یہ ٹائی ٹینک بن جائے گی۔ ویسے بھی  8 کا عدد نجس سمجھا جاتا ہے۔ اب خدا جانے اپوزیشن اس پر کیا طوفان اْٹھائے گی جس کے زد میں آ کر کہیں یہ ٹائی ٹینک اِدھر اْدھر ہچکولے نہ کھانے لگے۔ جس سے اس میں سوار لوگوں کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ اتحادیوں کو بھی راضی رکھنا ہوتا ہے۔ ورنہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ آج کے دوست کل کے دشمن بن جاتے ہیں تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ 
خدا نہ کرے ایسا ہو۔ ہاں اگر یہ کابینہ عوام کے مسائل کے حل میں جت جائے اور لوگوں کو مسائل سے نجات ملے تو بات اور ہو گی۔ ایسا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ انہیں یہ گاڑی، جھنڈا اور پروٹوکول اسی لیے دیا جاتا ہے کہ یہ عوام کی خدمت کریں انہیں ریلیف دیں۔ یہ صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں ، دوسرے صوبوں میں بھی یہی حال ہے۔ ہر ممبر اسمبلی کابینہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ وزیر یا مشیر بننا چاہتا ہے۔ شاید ان کے نزدیک وزیر یا مشیر بنے بغیر وہ عوام کی خدمت نہیں کر سکتے جبکہ عوام کا تجربہ ہے کہ وزیر ہو یا مشیر، کوئی بھی ان کے کسی کام نہیں آتا۔ ان کے اپنے کام ختم ہوں تو وہ لوگوں کے کام کریں۔ کابینہ چاہے جہازی سائز کی ہو یا مختصر اس کی قابلیت اس کے کام سے ہی سامنے آتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن