سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار زیرالتواء مقدمات 59 ہزار سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کی جاری کردہ دوسری سہ ماہی رپرٹ میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں رواں ماہ یکم جولائی سے 15 جولائی تک 1206 مقدمات دائر ہوئے جن میں سے 481 کیس نمٹائے گئے جبکہ ان پندرہ دنوں میں انسانی حقوق سے متعلق کسی کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ رپورٹ کے مطابق ہائیکورٹس کے فیصلوں کیخلاف 32 ہزار سے زائد اپیلیں سپریم کورٹ میں زیرسماعت آنے کے فیصلہ کی منتظر ہیں جبکہ زیرالتواء فوجداری اپیلوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جن کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح جیلوں میں مقید ملزمان کی اپیلوں کی تعداد 3296 تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں مرحوم بھٹو پھانسی کیس، جسٹس شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس اور پرویز مشرف کیس سمیت متعدد مقدمات میں سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں خوداحتسابی کے عمل کے عکاس ہیں۔
ہمارے نظام عدل میں فوری اور سستے انصاف کا نعرہ تو کافی مرغوب ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ اس معاملہ میں آج بھی یہی مثال صادق آتی ہے کہ دادے کا دائر کردہ کیس پوتا بھگت رہا ہوتا ہے اور اسے بھی انصاف کیلئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ گھر کی دہلیز پر انصاف کا تصور تو ویسے ہی بے معنی ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ اور مفصل (ماتحت) عدلیہ میں جتنی کثیر تعداد میں مقدمات زیرالتواء ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے‘ اسکے پیش نظر فوری انصاف کی فراہمی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے جبکہ سستے انصاف کا تصور ہی اذیت ناک ہے۔ نظام عدل میں اصلاح کی باتیں تو عدل گستری کے ہر سربراہ کے دور میں ہوتی رہی ہیں مگر اس کیلئے حکومتی اور عدالتی انتظامی سطح پر کوئی عملی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہمارے آج کے محاذآرائی اور بلیم گیم والے کلچر میں بدقسمتی سے عدلیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی چنانچہ بالخصوص عدالت عظمیٰ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات کے انبار لگتے جاتے ہیں جن کی سماعت بھی اولین ترجیح بنالی جاتی ہے۔ اس طرح دوسرے مقدمات زیر التواء پڑے رہتے ہیں اور مسلسل خواری عام سائلین کا مقدر بن جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان بار کونسل اور دوسرے آئینی و قانونی حلقوں کی جانب سے اکثر اس امر کا تقاضا سامنا آتا ہے کہ آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کیلئے الگ سپریم کورٹ تشکیل دے دی جائے تاہم اس کیلئے آئین میں ترمیم درکار ہوگی جو موجودہ پارلیمنٹ میں تو ممکن نظر نہیں آتی۔ اس لئے فی الوقت آئینی‘ سیاسی مقدمات کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا ایک بنچ مستقل طور پر مخصوص کر دیا جائے اور باقی فاضل جج عام سائلین کے مقدمات کی سماعت کریں۔ اسی طرح زیرالتواء مقدمات کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمات میں ریکارڈ اضافہ
Jul 22, 2024