مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز بھی موجود تھیں۔ قائد مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف نے کہا کہ بجلی کا بل کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا یہ غریب لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے مصیبت بن چکا ہے۔ ہم نے اپنے دور میں لوڈ شیڈنگ ختم کی اور بجلی کا نرخ بھی کنٹرول میں رکھا۔2017ء تک بجلی کے بل کم اور ڈالر کا نرخ نیچے تھا۔ 2018ء سے نظر لگی اور غریب پس کر رہ گیا۔ سڑک پر پھرتے شخص کو کہا گیا آئو ہم تمہیں انصاف دیں گے۔ میں پوچھتا ہوں اس ملک کے ساتھ ظلم کرنے کی ضرورت کیا ہے۔اجلاس میں لیگی لیڈروں کیساتھ چیئرمین پی اینڈ ڈی، سیکرٹریز اوردیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔محمد نواز شریف نے کہا کہ ملک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔ ترقی کرتا ہوا ملک گڑھے میں گرا دیا۔ فیصلے دینے والوں کو اب بھی سوچنا ہو گا۔
پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف پاکستان کے ان سیاسی اکابرین میں سے ہیں جو پاکستان کی سیاست، سیاسی کلچر، نشیب و فراز اور محلاتی سازشوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں بلکہ متعدد مرتبہ تو ایسی سازشوں کا خود شکار بھی ہو چکے ہیں۔وہ بجا طور پر 2017ء کا حوالہ دیتے ہیں جب پاکستان استحکام کی طرف بڑھ رہا تھا۔2017 ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت انہیں نااہل قرار دے کر اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔اس کے بعد بھی کم و بیش ایک سال مسلم لیگ نون کی حکومت رہی۔شاہد خاقان عباسی کو اس اجلاس میں وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا جس کی صدارت نواز شریف نے کی تھی۔2017 ء کے مقابلے میں آج حالات کئی گنا زیادہ مخدوش ہیں۔اس دوران ساڑھے تین پونے چار سال تحریک انصاف کی حکومت رہی اس کے بعد دوسری مرتبہ مسلم لیگ نون دیگر پارٹیوں کے ساتھ حکومت میں آئی ہے۔
آج عوام کی حالت انتہائی زیادہ دگرگوں ہے۔مہنگائی نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔مہنگائی کی وجوہات میں بجلی کی قیمتوں میں نان سٹاپ اور بے محابہ اضافہ شامل ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی لگاتار بڑھائی جا رہی ہیں۔ماضی میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک ماہ میں تین بار بجلی کی قیمتیں بڑھائی گئی ہوں۔ پچھلے ہفتے فی یونٹ سات روپے 12 پیسے اضافہ کیا گیا تھا اور اب فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مزید دو روپے 10 پیسے اضافہ کیا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے بالکل درست کہا گیا ہے کہ بجلی کے بل غریبوں کے لیے ہی نہیں سب کے لیے مصیبت کا باعث بن چکے ہیں۔بجلی کی قیمتیں کنٹرول ہو جائیں تو بہت سے مسائل سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کئی ممالک سے معاہدے ہو رہے ہیں۔سرمایہ کاروں کے لیے دو بنیادی ضرورتیں اہمیت کی حامل ہیں؛ ایک ملک میں سکیورٹی کی بہتر صورتحال اور دوسرے انرجی کی وافر مقدار میں اور سستے داموں دستیابی۔ اس دوسری ریکوائرمنٹ سے ہم بہت دور ہیں۔ایک تو بجلی بہت مہنگی ہے دوسرے بدترین لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔کئی علاقوں میں تو اتنی دیر کے لیے بجلی بحال ہوتی ہے کہ بمشکل لوگ موبائل ہی چارج کر سکتے ہیں۔
بجلی کی قیمتیں ناقابل برداشت ہونے اور ملکی معیشت کے انحطاط کی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہیں۔سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ چار آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار کے بغیر ہی ماہانہ 10 ارب روپے دیے جا رہے ہیں، جبکہ نصف آئی پی پیز 10 فیصد سے بھی کم کیپسٹی پر بجلی پیدا کرکے بل وصول کررہی ہیں۔ان کے بقول نجی ہی نہیں سرکاری پاور کمپنیاں بھی کھربوں روپے کے کپیسٹی چارجر سرکاری خزانے سے وصول کر رہی ہیں۔ اعداد و شمار کو مد نظر رکھا جائے تو یہ مطالبہ منطقی ہے کہ آئی پی پیز کو ادائیگی صرف بجلی پیدا کرنے پر کی جائے۔
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی باتیں ایک عرصے سے ہو رہی ہیں۔ اب تک نظر ثانی ہو جانی چاہیے تھی۔بجلی کی پیداوار کے بغیر بھی اتنی بڑی ادائیگیوں کو ڈکیتی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کیا حکومت بے بس ہو چکی ہے یا کچھ حکومتی ذمہ داروں کے مفادات کا ٹکراؤ آڑے آ رہاہے؟ اگر حکمران عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے تو اقتدار میں رہنے کا بھی حق نہیں ہے۔
میاں نواز شریف اپنے مذکورہ بیان میں عدلیہ کو پیغام دیتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔عدلیہ کی طرف سے میاں نواز شریف کو سزائیں سنائی گئیں اور عدلیہ ہی نے ان کی سزائیں ختم بھی کی ہیں۔سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ استحکام کی طرف جاتے ہوئے سسٹم کو کیوں ڈی ریل کر دیا جاتا ہے۔سسٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیوں کی جاتی ہے ؟ کون ایسی کوشش کرتا ہے کس کو ایسا کرنے کی کیوں ضرورت پڑ جاتی ہے؟
آج کتھارسس کا عمل جاری ہے۔ جس طرح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کا سلسلہ شروع کیا اسی طرح سیاست دانوں اور دوسرے اداروں کو بھی اپنی غلطیوں سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ بلیم گیم سے نکل کر قومی مفاد میں سوچا جائے۔ ملک کے مفاد میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اس کا لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ سیاستدان بھی اپنی صفیں درست کرنے کی کوشش کریں۔تحمل اور برداشت سے کام لیں، رواداری کو فروغ دیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں طالع آزمائی اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب سیاستدانوں کا ایک گروہ ماورائے آئین اقدامات کے راستے نکالتا ہے۔انصاف بہرحال عدلیہ کی طرف سے ہی ہونا چاہیے۔ میاں نواز شریف کا اشارہ اغلباً سپریم کورٹ کے خصوصی نشستوں کے فیصلے کی طرف ہے۔ مسلم لیگ نون کی نظر ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ اس پر نمبر لگ چکا ہے جلد یا بدیر اس پر سماعت ہوگی۔سپریم کورٹ اس پر جو مناسب سمجھے گی فیصلہ دے گی۔سیاست دانوں کو اس کلچر پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی کہ فیصلہ حمایت میں آئے تو اس کی تحسین دوسرے فریق کے حق میں چلا جائے تو اس کی نہ صرف سخت مخالفت کی جاتی ہے بلکہ ججوں کی کردار کردار کشی کی مہم چلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔