سنجیدہ حلقوں نے اس امر کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف چومکھی لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ ایک جانب ’’نام نہاد حقیقی آزادی‘‘ کا خواہاں گروہ ہے تو دوسری جانب ’’را‘‘، ٹی ٹی پی اور کئی دوسرے حلقے ہیں۔ اسی تناظر میں دو روز قبل بنوں میں ہونیوالی دہشتگردی کو بھی بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے کے پی،بلوچستان اور ملک کے کئی دیگر حصے دہشت گردی کی نئی لپیٹ میں ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے تدراک کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی صحیح روح کے مطابق عمل کرنے کی جانب موثر پیش رفت ہو کیوں کہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے نتیجے میں فسادیوں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا مگر بد قسمتی سے بوجوہ یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔
قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مراحل درپیش آتے ہیں، جو ظاہری طور پر بہت مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیں مگر باہمت اقوام کا یہ وصف ہوتا ہے کہ ان وہ چیلنجوں کو ’’مواقع‘‘ میں تبدیل کر لیتی ہیں۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور اے پی ایس میں انتہا ئی افسوس ناک المیہ پیش آیا مگر اس کو تاحال قومی سطح پر پوری طرح سے ایک ’’موقع‘‘میں نہیں ڈھالا جا سکا۔ اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر تاحال شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے سبھی متعلقہ فریقین کی باہمی مشاورت سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاتھا جس کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات کا تمام حکومتی و ریاستی ادارے کس طور تدارک کریں گے اور کس ڈھنگ سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔اسی حوالے سے پارلیمنٹ کا خصوصی ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا تھا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں نے بھرپور شرکت کی تھی۔ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا اعلان کیاگیا۔اس ضمن میں ابتدائی ہفتوں میں کافی اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اس حد تک نتیجہ خیز اور باآور ثابت نہ ہو پایا جس کی توقع کی گئی تھی۔ اس ضمن میں اگرچہ کافی پیش رفت بھی ہوئی اور ضرب عضب اور رد الفساد کے تحت دہشتگردی کے ڈھانچے کو کافی حد تک کمزور بھی کیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود اکا دکا واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ گذشتہ چند ہفتوں میں دہشتگردی کی یہ عفریت یوں لگتا ہے جیسے نئی نئی شکلیں بدل کر پھن پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس میں اب کئی چھوٹے اور بڑے گروہ مختلف ناموں سے پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت بجا طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔
اسی سلسلے کا جائزہ لیتے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ ایک جانب تو موثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورتہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ٹی ڈی پیز اور آئی ڈی پیز کی آبادکاری اور سابقہ فاٹا اصلاحات کو قانونی اور آئینی شکل دے کر اس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جا سکتا ہے۔ یہ امر کسی حد تک خوش آئند ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں اس ضمن میں خاصی سنجیدگی دکھائی جا رہی ہے۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ زمینی حقائق اس ا مر کے متقاضی ہیں کہ قوم کے سبھی حلقے تدبر،معاملہ فہمی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کو اس کی صحیح رْو اور سپرٹ کے مطابق نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔اسی تناظر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت آرمی چیف کی معاونت سے زرعی، صنعتی اور معاشی اور معاشر تی شعبے میں اصلاحات کے لئے سرگرم ہے ایسے میں بجا طور پر توقع کی جانی چاہیے کہ معاشرے کے سبھی حلقے باہم مل کر ملکی ترقی کی راہ میں اپنا اپنا مثبت کردار نبھائیں گے۔اس تمام صورتحال میں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ایک آپریشن ’’استحکام پاکستان‘‘ کے نام سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اب یہ عدلیہ سمیت ملک کے تمام حلقوں کی اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے کہ اس آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور اپنی اپنی ’’اناؤں‘‘ سے اوپر اٹھ کر ملکی سلامتی اور معاشی استحکام کیلئے کام کریں۔