وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف سے لوگوں کو بہت امیدیں ہیں۔کالم نگاروں کے ہمراہ دو تین تقریبات میں وزیر اعلی گفتگو سننے کے بعد
اور ایسا لگ بھی رہا ہے کہ مریم نواز شریف پوری تیاری کے ساتھ ملک کے بڑے صوبے کی کمان کررہی ہیں ۔لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح گوجرانوالہ اب بھی نظر انداز کیا جاتا رہے گا ۔کبھی گوجرانوالہ کو مسلم لیگ کا گڑھ کہا جاتا تھا ۔گوجرانوالہ کے عوام آج بھی اکثریت میں نواز شریف سے محبت کرتے ہیں ۔لیکن اس شہر سے منتخب ہونے والوں نے جب شہر کے بنیادی مسائل حل کروانے میں دلچسپی نہ لی تو شہر کے لوگوں نے ووٹ کی پرچی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔لاہور،کراچی،راولپنڈی اور فیصل آباد کے بعد گوجرانوالہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔اس شہر کے لوگ لاہور سے بھی زیادہ زندہ دل ہیں لیکن لاہور کے نزدیک ہونے کی وجہ سے گوجرانوالہ ہر دور میں نظر انداز ہوتا چلا آرہا ہے ۔۔تعلیم ،کھیل،صنعت،فلم ٹی وی ،تھیٹر،پکوانوں،کھانوں اور پہلوانوں کو جنم دینی والی زرخیز سرزمین کے باسی آج بھی بنیادی سہولتوں کے لیے حکام بالا کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں ۔چائے کی نشست پہ ایک دوست نے پوچھا راجہ صاحب!گوجرانوالہ میں لوگوں کو،یونیورسٹی،کھیلوں کے میدان،ہسپتال،پبلک ٹرانسپورٹ اوردیگر بنیادی سہولتیں کب فراہم کی جائیں گی۔
میں نے عرض کیا جب اس شہر میں کوئی سیاستدان پیدا ہوگا ۔ایک اور دوست بولا یہ جو لوگوں کے لاکھوں ووٹ لے کے اسمبلی پہنچ رہے ہیں یہ کیا سیاستدان نہیں ہیں؟جواب دیا ووٹ لینے سے کوئی سیاست دان کب بن جاتا ہے ۔یہ تو دھڑے بندیوں،برادریوں ،تعلقات اورچمک کی بدولت کامیاب ہونے والے لوگ ہیں ۔یہ جب اسمبلی پہنچتے ہیں تو شہر کے مسائل حل کروانا تو دور اس پہ بات بھی نہیں کرتے۔یہ اسمبلی رکن بن کے انتظامی دفاتر میں اپنا اثر روسوخ بناتے ہیں ۔اگلے بیس پچیس سال کے لیے منصوبے شروع کروانے کی بجائے اپنے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔آج بھی پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت ہے لیکن اس شہر سے کسی اسمبلی رکن کو وزرات نہ ملنا میری بات کو تقویت دیتا ہے کہ میرے شہر سے ووٹ لے کے اسمبلی پہنچنے والے ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں ۔پچھلے کچھ سال سے گوجرانوالہ میں یونیورسٹی کا مطالبہ زور پکڑے ہوئے ہیں ۔حکام عوامی دباو کو کم کرنے کے لیے کبھی ایمن آباد میں تو کبھی ڈسکہ کے نزدیک یونیورسٹی بنانے کے لیے جگہ تک مختص کرنے کا لالی پاپ دیتے آرہے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہورہا۔اب یہ خبر سننے میں آرہی ہے کہ شہر کے وسط میں آبادگورنمنٹ بوائز کالج سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالا اور گورنمنٹ چودھری رحمت علی میموریل کالج برائے خواتین گوجرانوالا کو ملا کریونی ورسٹی آف گوجرانوالہ بنانے جیسے عالی شان منصوبے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ایسی تجویز پیش کرنے والے شاید یونیورسٹی کے مفہوم و مطلوب سے ہی بے خبر ہیں۔گجرات،سیالکوٹ،نارووال میں کب کی یونیورسٹیاں بچوںکو تعلیم کی روشنی سے منور کررہی ہیں لیکن ملک کے پانچویں بڑے شہر کے لوگوں کے لیے ابھی بھی ڈنگ ٹپاو پالیسی سے کام لیا جانا سمجھ سے باہر ہے۔اگر گوجرانوالہ میں کوئی واقعی سیاست دان ہوتا توڈویژنل ہیڈکوراٹر ہونے کے ناطے سیالکوٹ،گجرات اور نارووال سے پہلے اس شہر میں یونیورسٹی بنائی جاتی۔اگر سیاست کی جاتی تو
ائیرپورٹ اور ڈرائی پورٹ سیا لکوٹ میں بنتے،نہ کارڈیالوجی ہسپتال وزیر آباد میں بنتا،قدیم ریلوے اسٹیشن گرا کے کئی عشروں کے لیے لیز پر لیا جاچکا ہے ،وہیں آبادواحد ٹی ہاوس کب کا بند ہو چکا ہے، شیخ دین محمدلائبریری کئی ماہ پہلے گرائی جاچکی ہے اور جناح لائبریری کی رونقیں کب کی ختم ہوچکی ہیں۔ملتان میں انٹرنیشنل اور پی ایس ایل کے میچز ہونا عام ہے لیکن جناح سٹیڈیم کئی عشروں سے قومی کرکٹر کے درشن سے محروم ہے۔شہر میں تجاوازت کی بھر مار اور سڑکوں پر رکشوں کا قبضہ عام بات ہے ۔شہر کے وسط میںمین جی ٹی روڈ پر بس سٹاپ موڑ پر بارشی پانی آج بھی تیس سال پہلے کی طرح کھڑ ا ہوکے مسافروں کو پریشان کرتاہے ۔کئی حکومتیں بدل چکی لیکن سیوریج کا بنیادی مسئلہ حل کرنا کسی کے منصوبے میں ہی شامل نہیں رہا۔ہاوسنگ سوسائٹیوں میںگندگی کے ڈھیر جا بجا نظر آتے ہیں ۔شہری علاقوں میں رکشے ،کاریں اور لوڈر ویگنیں ہر وقت سڑکوں کو بند کیے رکھتے ہیں ۔ہسپتالوں میںنا مناسب سہولیات کو رونا بھی عام بات ہے لیکن تکلیف دہ مسئلہ یہ ہے کہ شہر کی انتظامیہ یا عوامی نمائندوں نے کبھی شہریوں کے لیے بہتر پبلک ٹرنسپورٹ فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔کسی دور میں شہر میں ویگنیں چلتی تھیں ۔جن میں بے شک سواریوں کو ٹھونس ٹھونس کے بھرا جاتا تھا لیکن ان ویگنوں میں خواتین کے لیے پھر بھی کچھ سیٹیں مخصوص ہوتی تھیں ۔آج حال یہ ہے کہ انتظامیہ نے ایک عرصے سے شہر میں چلنے والی ویگنیں تو بند کردی ہیں۔لیکن ان ویگنوں کی جگہ کسی متبادل سواری کا انتظام نہیں کیا گیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آج سارا شہر چنگ چی رکشوں کے رحم و کرم پہ ہے ۔بغیر لائسنس,بغیر روٹ پرمٹ,بغیر پاسنگ اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے چلنے والی اس آفیت نے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے ۔شہر میں کسی کو فکر نہیں ہے کہ عوام کن مسائل کا شکار ہے ۔لوگ گھروں سے دفتر یا کسی دوسرے مقام کے لیے کیسے پہنچتے ہیں,اس کا احساس بھی کسی کو نہیں ہے ۔ ان رکشوں پہ کم عمر جوشیلے ڈرائیوروں ہونے کی وجہ سے ہر روز سڑکوں پہ حادثات کا ہونا ایک عام سی بات ہے ۔قسطوں پہ دستیاب یہ موت کی سواری ہر کسی کو آسانی سے فراہم کی جارہی ہے ۔ ۔ہر چھوٹی بڑی عمر کا بندہ پانچ سات ہزار ایڈوانس پہ چاند گاڑی لے کے سڑک پہ آکھڑا ہوتا ہے ۔نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ کہیں سے پرمٹ لینے کا جھنجٹ۔ رجسٹریشن،روٹ اور لائسنس حاصل کیے بغیر کاروبار کا آغاز کر دیا جاتا ہے ۔شہری پولیس کی طرف سے روا رکھی جانے والی اس مجرمانہ غفلت پہ سخت پریشان ہیں ۔پولیس یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان رکشوں کو سڑک پہ چلنے کی اجازت نہیں ہے ۔خاموش تماشائی بنی صرف چالان کیے جارہی ہے ۔لوگ امید بھری نظروں سے وزیر اعلی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔مشیروں،وزیروں اور گوجرانوالہ سے مسلم لیگی راہنماوں کو وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کو مشورہ دینا چاہیے کہ اس شہر کو اب نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ پہلی فرصت میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔