روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو

جمیل الدین عالی نے روٹی کی ان تھک بازی کے سلسلے میں اپنے ایک گیت میں کہا تھا 
 سب بات وہیں آ جاتی ہے
 چھن چھنن چھنن 
چھن چھنن چھنن
 ہمارے حکمراں، مقتتدر حلقے، صبح و شام ٹی وی ٹاک شو میں آنے والے سیاسی پنڈت اور دین کی باتیں کرنے والے جتنا مرضی کمال دکھا دیں بات گھوم کر روٹی پر ہی آ تی ہے۔ یقین کیجئے عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ڈالر کا آج کا ریٹ کیا ہو گیا۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کس نہج پر جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف اب کیا کرنے والا ہے۔یہ کوئی آج کا نہیں بلکہ کئی ایک سالوں کا قصہ ہے کہ گرمیاں آتی ہیں تو بے چارے عوام بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اس آئے روز کے بڑھتے ہوئے بجلی کے بلوں کو روتے ہیں اور سرد یاں سوئی گیس کے ہوشربا بلوں کی قسطیں کرواتے گزر تی ہیں۔ یہ ہے آٹے دال کا بھا? !! اس کہانی میں سے دال کو نکال دیں صرف آٹے کی بات کرتے ہیں۔ اکثر گھرو ں میں چاولوں کے ساتھ روٹی کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ چلیں رو پیٹ کر سستے بازاروں سے دیگر اشیاء کی خریداری پر کی گئی ماہانہ بچت آپ آٹے کی خرید پر لگائیں تو چند سال اْدھر تو کھینچ تان کے کام چل جاتا تھا لیکن اب ایسا ہونا عوام کی قوتِ خرید اور دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ ’ کھانے کے قابل ‘ آٹے کا 20 کلو والے تھیلے کی قیمت تو اب نا قابلِ برداشت ہو چکی ہے۔بہت سے گھرانے مجبور ہو کر میدے اور آٹے کو ملا کر اپنا کام چلا رہے ہیں۔ تنور سے روٹی یا نان منگواتے ہوئے بھی دو مرتبہ جیب کو دیکھا جاتا ہے۔ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب روٹی نان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، یا کر دیا گیا۔ اس پر شہر کی انتظامیہ کا اپنا موقف تھا اور نانبائی یونین کا اپنا۔ روٹی کا مسئلہ ایک شہر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے۔پچھلے دنوں راولپنڈی میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہو گئی جب یہاں کی انتظامیہ نے نانبا یں پر جرمانے اور پکڑ دھکڑ کرنا شروع کرد ی۔ نانبائی اسو سی ایشن کا موقف تھا کہ آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمت اور سوئی گیس کی بندش یا عدم دستیابی کی وجہ سے مجبوراََ مہنگے داموں سلنڈر پر تنور چلا رہے ہیں۔اس لئے حکومتی نرخ پر روٹی کیسے فراہم کی جا سکتی ہے۔ کیا پاکستانی عوام کی قسمت میں بس روٹی کے حصول کی بھاگ دوڑ ہی رہ گئی ہے… اس موقع پر مجھے اپنے وقت کے عظیم عوامی شاعر، شیخ ولی محمد المعروف نظیر ا کبر آبادی (1735 سے 1830) یاد آ گئے۔حضرت کی مشہور نظموں میں ’ آدمی نامہ ‘، ’ روٹیاں ‘، ’ بنجارا نامہ ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں دارِ فانی سے گزرے 194 سال ہو چکے لیکن حضرت کے درجِ ذیل کچھ اشعار پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے یہ نظم خاص طور پر آج کل کے پاکستانی عوام کے لئے لکھی :
  روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
 میلے کی سیر خواہشِ باغ و چمن نہ ہو
 بھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
 سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
 اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
 کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
 لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
 باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
 سب کشف و کمال ہیں روٹی کے واسطے
 جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
حکمراں اور سیاستداں عوام سے اب مزید کیا توقع رکھتے ہیں۔اب وہ اور کیا کریں؟ یہ جو دن رات ٹی وی اسکرینوں پر اینکر حضرات، یو ٹیوبر تجزیہ نگار اور میڈیا کی ’ خدمت ‘ کرنے والے اپنی ڈفلیاں اور راگ سنا رہے ہیں کیا انہوں نے خود کبھی اپنے آپ کو ایک عام پاکستانی کی جگہ رکھ کر سوچا کہ اِس کے دن رات کیسے گزرتے ہوں گے!! خاکسار کی ایسے تمام ’’ وی آئی پی ‘‘ میڈیا پرسنوں سے درخوست ہے کہ ایک دن، محض ایک دن اپنے کرو فر اور قیمتی کاریں ایک طرف رکھتے ہوئے عام آدمی کے ’ گیٹ اَپ ‘ میں عوامی بازاروں، مارکیٹوں ، تنوروں پر جا کر آنکھ اور کان کھول کر مشاہدہ کیجئے۔آپ کو شاید تھوڑا سا اندازہ ہو جائے کہ وہ کس کرب کی زندگی گزار رہے ہیں۔اور اگر آپ میں حوصلہ ہے تو اسی گیٹ اپ میں سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی، میڈیکل وارڈوں اور او پی ڈی کا چکر لگا آیئے۔ معذرت کے ساتھ آپ کے تمام تجزیے ، اعداد و شمار، وزرا سے تعلقات … کوئی وقعت نہیں رکھتے۔عوام کو آپ کی بقراطیت کی بالکل کوئی پروا نہیں، یہ تو روٹی کی ان تھک بازی میں لگے ہوئے ہیں…لیکن خدارا ان کا صبر مزید مت آزمائیے !!!

ای پیپر دی نیشن