اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کی جلسہ کی اجازت نا دینے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔
شعیب شاہین ایڈوکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ چار دن ٹی ایل پی والے آئے سڑکیں بھی بند تھیں کوئی مقدمہ کوئی کچھ نہیں ، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کریں ہم کہہ رہے ہیں ہمارا حق ہے ،کمشنر نے کہا ہے ہائیکورٹ آرڈر کرے گی تو وہی دیکھیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریماکس میں کہا کہ شعیب شاہین صاحب کوئی بات نہیں بن رہی؟ چیف جسٹس آف پاکستان کا فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ آج بھی موجود ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ہم کہتے ہیں کہ چالیسویں تک جلسہ نہ کریں، جس پر جیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چہلم کب ہے، کیا 14 اگست نہیں منا رہے؟لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے لیکن ملک میں دیگر ایکٹیوٹیز بھی تو چل رہی ہیں، چیف جسٹس نےایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ ایک جلسہ کرنا ہے تو اُس میں کیا غلط ہے؟چہلم کے بعد آپ کہیں گے بارشیں بہت آ گئیں، پھر کہیں گے سردی بہت ہو گئی،یہ تو پھر نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ایسا نہ کریں۔
شعیب شاہین کاکہنا تھا کہ ایف نائن پارک میں جماعت اسلامی کا جلسہ ہوا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ این او سی ملنے کے ساتھ بیان حلفی دینا ہوتا ہے ۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے ان کو بلایا بھی تھا ۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بیٹھانے کا مقصد یہ تو نہیں تھا چائے کا کپ پلانا ہے آپ نے آرڈر کرنا تھا ،آرڈر کی صورتحال ہے لیکن بیلنس رکھیں ، انہوں نے ایک جلسہ کرنا ہے کیا اس میں غلط ہے ۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ چہلم کے بعد یہ رکھ لیں، 25 اگست کے بعد جلسہ رکھ لیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا 14 اگست کی ساری تقریبات ختم ہو گئیں ؟ ایسا نا کریں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ٹی ایل پی کی بات ان سے کی تو انہوں نے ٹی ایل پی نے کون سا ہم سے پوچھ کر کیا ہے ، شعیب شاہین کی بات پر چیف جسٹس عامر فاروق مسکرائے آپ واپس لینے سے پہلے ان کو بلا تو لیتے ،سیاسی جلسہ ان کا حق ہے ۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کی چیف کمشنر اور درخواست گزار کو دوبارہ ملاقات کی ہدایت،ملاقات کریں اور اُس میں جلسے سے متعلق معاملات طے کریں، میں گزشتہ آرڈر والی ہدایات دہراتے ہوئے درخواست نمٹا رہا ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جلسے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست نمٹا دی۔