وطن عزیز میں جو اصحاب سفارت کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں‘ اُن کی ایسوسی ایشن (انجمن سابقہ سفیراں) نے کابل میں طے پانے والے اس میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پایا ہے۔ انہوں نے میمورنڈم کے اُس حصہ کو خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا جس کی رو سے بھارت کو اپنا مال ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت کے طور پر واہگہ سے طورخم لے جانے کی اجازت ہوگی۔ انجمن نے واضح کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی کنونشن برائے بحری راستہ جات کی رو سے‘ ہر اُس ملک کو جس کا اپنا ساحل نہ ہو‘ سمندر تک رسائی کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی کہ وہ کسی تیسرے ملک تک رسائی بھی بطور حق استعمال کرے۔ لہٰذا پاکستان کیلئے بھارت کو یہ راستہ دینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ البتہ پاکستان نے دوستانہ تعلقات کی خاطر افغانستان کو طورخم سے واہگہ تک مال برآمد کرنے کی یکطرفہ سہولت دے رکھی ہے۔ انجمن نے اس بات کی حمایت کی کہ افغانستان کی یہ یکطرفہ سہولت برقرار رکھی جائے۔
انجمن نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا‘ کہ حکومت نے اس میمورنڈم کے اغراض و مقاصد پر عوامی اضطراب دور کرنے کیلئے کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں جو کہ پاکستان افغانستان اور امریکہ کے درمیان واشنگٹن میں 6 مئی کو طے پایا ہے اور خصوصی اس انتہائی غیرمعمولی حقیقت پر کہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان اس معاہدہ پر‘ جس کی پاکستانی عوام کو کسی قسم کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی تھی‘ اس کے بارے میں اعلان بھی ایک تیسرے ملک میں اور اُسی ملک کے نمائندے نے کیا۔ آخر اس قدر چوری چوری امریکہ بہادر کے حضور کورنش بجا لانے کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل ہم امریکہ کے غلاموں کے غلام ہیں۔ حکومت کی طرف سے عوامی خدشات کو دور کرنے کی کوئی سعی نہ ہونے اور پارلیمنٹ سے بالا بالا یہ سب کچھ کر گزرنے کی وجہ سے بھی اندیشہ ہائے دور و دراز جنم لے رہے ہیں تو پھر آخر پارلیمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس تکلف کو ختم کریں اور ڈنکے کی چوٹ پر شخصی حکومت قائم کریں۔ پاکستان نے 1947ء سے ہی بھارت کو افغانستان مال لے جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کی وجہ بھارت سے ہمارے تعلقات کی نوعیت ہے۔ اس پالیسی میں ردوبدل سے قبل قومی سطح پر بحث کی ضرورت ہے۔
بھارت کشمیر کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر دو طرفہ مذاکرات کے علاوہ کسی اور طریقہ کی مخالفت کرتا آیا ہے‘ خدا جانے حکمرانوں کے ذہن میں کیا بات آئی کہ انہوں نے اتنی بڑی سہولت پر اتنی بڑی پیش رفت اتنے خفیہ طریقے سے کر ڈالی اور جبکہ بھارت نے اُن سے براہ راست کوئی درخواست تک نہیں کی تھی۔
دراصل:
بن مانگے ملیں موتی
مانگے ملے نہ بھیک
ایک طرف بھارت افغانستان میں قونصل خانوں سے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے‘ تو دوسری طرف وہ ان دریائوں پر بھی جو سندھ طاس معاہدہ کی رو سے پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس کی طرف سے کسی درخواست یا کوشش کے بغیر ہی اس کے منہ میں گھی شکر دے رہے ہیں۔ دراصل سندھ طاس معاہدے ایسے مذاکرات کے دوران ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ شائد بھارتی ہمارے مندوبین کو کسی نہ کسی طور خوش کرتے ہیں‘ ورنہ اس قدر یکطرفہ پسپائی سمجھ میں نہیں آتی۔
بھارت کو واہگہ سے طورخم تک مال لے جانے کی اجازت پر غور وخوض صرف اُس صورت ہونا چاہئے جب وہ افغان قونصل خانوں سے تخریب کاری بند کرے اور دریائوں پر ڈیم بنانے نہ صرف بند کرے بلکہ اس سارے مسئلے پر حقیقت پسندانہ مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کرے۔
حکومت کی طرف سے اس قدر خفیہ طریقہ سے میمورنڈم پر دستخط کرنے سے حکومت کی طرف سے عوام اور پارلیمنٹ کی بے توقیری کا واضح اظہار ہوا ہے۔ کیا ہم نے یہی دن دیکھنے کے لئے پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی کی تحریک چلائی تھی؟ حکومت کو عوام کے اس مسئلہ پر شدید اضطراب کا ادراک کرنا چاہئے اس مسئلہ پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بحث شروع کرنی چاہئے اور صرف اس کے بعد اس مسئلہ پر کوئی پیش رفت کرنی چاہئے۔ آخر یہ ملک صرف حکمرانوں کا نہیں 17 کروڑ عوام کا ہے۔
انجمن نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا‘ کہ حکومت نے اس میمورنڈم کے اغراض و مقاصد پر عوامی اضطراب دور کرنے کیلئے کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں جو کہ پاکستان افغانستان اور امریکہ کے درمیان واشنگٹن میں 6 مئی کو طے پایا ہے اور خصوصی اس انتہائی غیرمعمولی حقیقت پر کہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان اس معاہدہ پر‘ جس کی پاکستانی عوام کو کسی قسم کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی تھی‘ اس کے بارے میں اعلان بھی ایک تیسرے ملک میں اور اُسی ملک کے نمائندے نے کیا۔ آخر اس قدر چوری چوری امریکہ بہادر کے حضور کورنش بجا لانے کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل ہم امریکہ کے غلاموں کے غلام ہیں۔ حکومت کی طرف سے عوامی خدشات کو دور کرنے کی کوئی سعی نہ ہونے اور پارلیمنٹ سے بالا بالا یہ سب کچھ کر گزرنے کی وجہ سے بھی اندیشہ ہائے دور و دراز جنم لے رہے ہیں تو پھر آخر پارلیمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس تکلف کو ختم کریں اور ڈنکے کی چوٹ پر شخصی حکومت قائم کریں۔ پاکستان نے 1947ء سے ہی بھارت کو افغانستان مال لے جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس کی وجہ بھارت سے ہمارے تعلقات کی نوعیت ہے۔ اس پالیسی میں ردوبدل سے قبل قومی سطح پر بحث کی ضرورت ہے۔
بھارت کشمیر کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر دو طرفہ مذاکرات کے علاوہ کسی اور طریقہ کی مخالفت کرتا آیا ہے‘ خدا جانے حکمرانوں کے ذہن میں کیا بات آئی کہ انہوں نے اتنی بڑی سہولت پر اتنی بڑی پیش رفت اتنے خفیہ طریقے سے کر ڈالی اور جبکہ بھارت نے اُن سے براہ راست کوئی درخواست تک نہیں کی تھی۔
دراصل:
بن مانگے ملیں موتی
مانگے ملے نہ بھیک
ایک طرف بھارت افغانستان میں قونصل خانوں سے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے‘ تو دوسری طرف وہ ان دریائوں پر بھی جو سندھ طاس معاہدہ کی رو سے پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس کی طرف سے کسی درخواست یا کوشش کے بغیر ہی اس کے منہ میں گھی شکر دے رہے ہیں۔ دراصل سندھ طاس معاہدے ایسے مذاکرات کے دوران ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ شائد بھارتی ہمارے مندوبین کو کسی نہ کسی طور خوش کرتے ہیں‘ ورنہ اس قدر یکطرفہ پسپائی سمجھ میں نہیں آتی۔
بھارت کو واہگہ سے طورخم تک مال لے جانے کی اجازت پر غور وخوض صرف اُس صورت ہونا چاہئے جب وہ افغان قونصل خانوں سے تخریب کاری بند کرے اور دریائوں پر ڈیم بنانے نہ صرف بند کرے بلکہ اس سارے مسئلے پر حقیقت پسندانہ مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کرے۔
حکومت کی طرف سے اس قدر خفیہ طریقہ سے میمورنڈم پر دستخط کرنے سے حکومت کی طرف سے عوام اور پارلیمنٹ کی بے توقیری کا واضح اظہار ہوا ہے۔ کیا ہم نے یہی دن دیکھنے کے لئے پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی کی تحریک چلائی تھی؟ حکومت کو عوام کے اس مسئلہ پر شدید اضطراب کا ادراک کرنا چاہئے اس مسئلہ پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بحث شروع کرنی چاہئے اور صرف اس کے بعد اس مسئلہ پر کوئی پیش رفت کرنی چاہئے۔ آخر یہ ملک صرف حکمرانوں کا نہیں 17 کروڑ عوام کا ہے۔