یہ الفاظ کی جادوگری نہیں، کھلم کھلا دھوکہ بلکہ سرعام ڈکیتی ہے۔ ایم ڈی پیپکو کے اس اعلان کو کھلی ڈکیتی کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے کہ بجلی پر دی گئی سبسڈی ختم کردی گئی ہے اور اب یکم جولائی سے بجلی 17 فیصد مہنگی ہو جائے گی۔ بجلی کے صارفین تھوڑی سی زحمت کرکے اپنے ادا شدہ بجلی کے بلوں کا جائزہ لے لیں۔ بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی کاخانہ انہیں اس سال فروری کے بلوں میں ہی خالی نظر آئے گا، یعنی بغیر کسی اعلان کے سبسڈی اس سال کے آغاز ہی میں ختم کردی گئی تھی۔ صرف سبسڈی ہی ختم نہیں کی گئی جنرل سیلز ٹیکس بھی انہی بلوں میں آپ کو صارفین کے کھاتے میں پڑا ہوا نظر آئے گا۔ اس طرح بجلی کے بلوں میں تو عملاً 30,25 فیصد اضافہ یہ سال شروع ہوتے ہی کر دیا گیا تھا۔ مگر غیر منتخب مشیر خزانہ شوکت ترین دل جلانے کو ہرپندرہ بیس دن بعد یہ اعلان کرتے بھی نظر آئے کہ آئندہ ایک دو ماہ میں بجلی پر سبسڈی ختم کردی گئی جائے گی، پھر مجوزہ وفاقی بجٹ میں بھی بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کی مد ڈال دی گئی ، ابھی اس بجٹ کی منظوری کے کئی مراحل طے ہونے ہیں۔ قومی اسمبلی میں دھواں دھار بحث چل رہی ہے۔ اپوزیشن کے علاوہ خود حکومتی بنچوں کی جانب سے ترامیم آ رہی ہیں کہ بجلی، گیس پر سبسڈی برقرار رکھی جائے۔ سی این جی پر شوکت ترین کے عائد کردہ کاربن ٹیکس کو عوامی نمائندوں کے دبائو پر وزیراعظم پہلے ہی ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ کیا بعید ہے، اسی عوامی دبائو کے تحت، بجلی، گیس پر سبسڈی برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی ہو جائے مگر ایم ڈی پیپکو اتنے با اختیار ہیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی میںبجٹ کی منظوری کے مراحل طے ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا اور ازخود یہ فیصلہ سنا دیا کہ بجلی پر سبسڈی ختم، اب یکم جولائی سے بجلی 17 فیصد مہنگی ہو جائے گی۔ پھر اسے ننگی ڈکیتی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجلی پر سبسڈی فروری کے بلوں سے ہی ختم کی جا چکی ہے جس کی گواہی ادا شدہ بلوں میں موجود ہے تو پھرجولائی کے بلوں میں سے مزید کون سی سہولت ختم ہونے والی ہے، جبکہ ادا شدہ بلوں میں یہ ثبوت بھی موجود ہے کہ صارفین بجلی سے پہلے ہی ہر قسم کی سہولتیں واپس لے کر انہیں مزید بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ کے نیچے دبا دیا گیا ہے۔ لازماً اب سبسڈی کے خاتمہ کے نام پرمزید کلہاڑا چلا کر صارفین کو بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت سے بھی محروم کیا جائے گا۔ ان کے پیلے پڑے جسموں میں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا جائے گا اور پھر جان کنی کی کیفیت میں آئے غریب صارفین کو آئی ایم ایف سے مستعار لئے گئے مرض الموت سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی پہلے ہی طے کی جاچکی ہے جس کے تحت دسمبر تک بجلی 30 فیصد مزید مہنگی کی جائے گی، اس طرح ایک غریب صارف کو سو یونٹ بجلی ساڑھے514روپے میں ملے گی، جبکہ سو یونٹ سے زیادہ استعمال ہونے والی بجلی پر بجلی کا ٹیرف بھی شتر بے مہار بڑھتا رہے گا، اس ’’زلف‘‘ کے سر ہونے تک کون جیتا رہے گا۔ آئی ایم ایف کی یہ زلفِ گرہ گیر عشوہ و ناز ہی نہیں، اپنا قہر بھی ڈھانے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔ پہلے شوکت عزیز نے چابک پکڑی ہوئی تھی۔ اب شوکت ترین کو قتل عام کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں سے صارفین بجلی کو روشنی کی کوئی کرن نظر آگئی تو اس کا معاوضہ اکیلی جان کی نہیں، پورے خاندان کی جانوں کی قربانی ہوسکتا ہے۔ ہمارے ’’مجاوروں‘‘ کو مبارک ہو کہ آئی ایم ایف کی زیر ہدایت ہنستی بستی بستیوں کو قبرستان میں تبدیل کرنے کا ٹارگٹ پورا کرنے میں اب تھوڑی سی کسر ہی باقی رہ گئی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بجلی پر سبسڈی فروری کے بلوں سے ہی ختم کی جا چکی ہے جس کی گواہی ادا شدہ بلوں میں موجود ہے تو پھرجولائی کے بلوں میں سے مزید کون سی سہولت ختم ہونے والی ہے، جبکہ ادا شدہ بلوں میں یہ ثبوت بھی موجود ہے کہ صارفین بجلی سے پہلے ہی ہر قسم کی سہولتیں واپس لے کر انہیں مزید بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ کے نیچے دبا دیا گیا ہے۔ لازماً اب سبسڈی کے خاتمہ کے نام پرمزید کلہاڑا چلا کر صارفین کو بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت سے بھی محروم کیا جائے گا۔ ان کے پیلے پڑے جسموں میں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑا جائے گا اور پھر جان کنی کی کیفیت میں آئے غریب صارفین کو آئی ایم ایف سے مستعار لئے گئے مرض الموت سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی پہلے ہی طے کی جاچکی ہے جس کے تحت دسمبر تک بجلی 30 فیصد مزید مہنگی کی جائے گی، اس طرح ایک غریب صارف کو سو یونٹ بجلی ساڑھے514روپے میں ملے گی، جبکہ سو یونٹ سے زیادہ استعمال ہونے والی بجلی پر بجلی کا ٹیرف بھی شتر بے مہار بڑھتا رہے گا، اس ’’زلف‘‘ کے سر ہونے تک کون جیتا رہے گا۔ آئی ایم ایف کی یہ زلفِ گرہ گیر عشوہ و ناز ہی نہیں، اپنا قہر بھی ڈھانے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔ پہلے شوکت عزیز نے چابک پکڑی ہوئی تھی۔ اب شوکت ترین کو قتل عام کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں سے صارفین بجلی کو روشنی کی کوئی کرن نظر آگئی تو اس کا معاوضہ اکیلی جان کی نہیں، پورے خاندان کی جانوں کی قربانی ہوسکتا ہے۔ ہمارے ’’مجاوروں‘‘ کو مبارک ہو کہ آئی ایم ایف کی زیر ہدایت ہنستی بستی بستیوں کو قبرستان میں تبدیل کرنے کا ٹارگٹ پورا کرنے میں اب تھوڑی سی کسر ہی باقی رہ گئی ہے۔