مجید نظامی کے لئے ”عظیم قومی ”لونگ لیجنڈ“ صحافی ایوارڈ“

واقعہ تو وہ ہے کہ مجید نظامی اپنی ذات میں پاکستان ہیں۔ صوفیہ بیدار نے کہا کہ مجید نظامی تجسیمِ غیرت و حمیت ہیں اور قومی سطح پر اس عمر میں بھی ایک شجرِ ثمربار ہیں۔ شعیب بھٹہ نے اعتراف کیا کہ مجید نظامی اور نوائے وقت آمریت کے مقابل جمہوریت کا عکس و تصویر ہیں اور ”امن کی آشا“ کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو سازش کی جا رہی ہے اس کا شافی علاج بھی مجید نظامی ہی ہیں۔ ڈاکٹر فیاض رانجھا نے مجید نظامی کو پیکر استقامت قرار دیتے ہوئے ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا کہ استقامت کو کرامت پر بھی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ پرویز ملک کا تجزیہ وہ تھا کہ اپنی خدمات کی چکا چوند میں مجید نظامی کا اسم گرامی ہر جگہ درخشاں ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ان کا م¶قف ملتِ پاکستان کے لئے قابل تقلید ہے۔ وہ پاکستان کی محترم ترین شخصیت ہیں ۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے فرمایا کہ مجید نظامی واقعی ایک لِونگ لیجنڈ ہیں اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح، مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال اور شمع جمہوریت، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے سیاسی و قومی افکار و کردار کا آئینہ ہیں انہوں نے قوم ساز ادارے قائم کئے اور پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنا دینے کے اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو جناب قائداعظم کا مطمع نظر تھا۔ سید آصف ہاشمی کی تقریر جداگانہ تھی انہوں نے کہا کہ مجید نظامی نظریاتی صحافت کا حصار ہیں وہ نظریاتی صحافت کے مبلغ اور جمہوریت کے علمبردار ہیں، میں نے بھی تین چار وزرائے اعظم کے ساتھ تو کام کیا ہے ان کو صبح صرف نوائے وقت کی تلاش ہوتی ہے کہ اس نے کیا لکھا ہے اور مجید نظامی کیا کہتے ہیں۔ اس تقریب میں مجید نظامی سے پہلے ڈاکٹر مجاہد کامران نے جو ایک عظیم صحافی اور مجید نظامی کے بزرگ دوست سید شبیر حسین شاہ کے لختِ جگر ہیں، مجید نظامی کو نظریہ پاکستان کا ابلاغ رواں قرار دیا اور کہا کہ نظریہ پاکستان پر ان کا ایقان پختہ ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بھارت کا ہندو بنیا پاکستان کا بنیادی اور ازلی دشمن ہے، وہ ہر جابر سلطان کے سامنے اعلائے کلمة الحق کا عظیم فریضہ ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اور انہوں نے ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں بھی اپنا معیار حق و صداقت قائم رکھا۔ آخر میں جب نظامت کار نیاز حسین لکھویرا نے جناب مجید نظامی کو دعوت خطاب دی تو انہوں نے اس تقریب کے روح و رواں اقبال حسین لکھویرا اور محمد سلیم شاد کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس تقریب کے انعقاد کا تکلف کر لیا، اقبال حسین لکھویرا نے تو مجھے دوبئی میں بھی میرے اعزاز میں منعقدہ اپنی تقریب میں مدعو کر لینے میں کامیابی حاصل کر لی تھی مگر آج میں وہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیوں کیا، مجید نظامی نے تمام مقررین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے عالی دماغ تشریف آوردہ حضرات و خواتین کا بھی شکریہ ادا کیا اور اپنے عہدِ صحافت کے ہر آزمائش و امتحان کا بھی اختصاراً جائزہ لیا اور وہ بھی بتایا کہ مسلمانانِ ہندوستان کے بطلِ جلیل حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر انہوں نے ڈاکٹر رفیق احمد اور دیگر رفقاءکے ساتھ اپنے برادر بزرگ جناب حمید نظامی کی قیادت میں تحریک قیام پاکستان کی کامیابی کے لئے اسلامیان برصغیر کو بیدار کر دینے کی خاطر مسلمانوں کی اس جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور 1946ءکے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو صوبہ پنجاب میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی، مسلم لیگ ہی کی حکومت قائم ہوئی اور اس کامیابی کے تصدق پاکستان وجود میں آ گیا۔ پھر اپنے برادر بزرگ جناب حمید نظامی کی اچانک وفات کے بعد لندن سے آ کر انہوں نے نوائے وقت کی عنانِ ادارت سنبھالی اور گزشتہ تقریباً نصف صدی کے دوران آج تک اس کٹھن فریضہ کو ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اور اپنے صحافتی معیار اور قومی کردار کو ادا کرنے کے باب میں ہر ڈکٹیٹر اور ہر سویلین حکمران سے ان کا ٹکرا¶ ہوتا رہا مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر آزمائش میں انہیں استقامت عطا کی اور ابھی تک وہ پوری صحت و جاں فشانی کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور جناب قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ تصور کرتے ہیں اور عہد کئے ہوئے ہیں کہ جب تک کشمیر آزاد ہو کر پاکستان سے ملحق نہیں ہو جائے گا وہ کبھی بھارت نہیں جائیں گے حالانکہ ان کی اہلیہ مرحومہ کا خاندان کشمیر سے تھا اور وہ وہاں جانا بھی چاہتی تھیں مگر مجھے تو جب صدر ضیاءالحق نے اپنے ایک دورہ¿ بھارت کے دوران ساتھ لے جانے کی کوشش کی تو میں نے ان سے کہا کہ جب آپ ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جائیں گے تو میں آپ کے ساتھ جا¶ں گا، یاد رکھئے کہ بھارت اور بھارت کا ہندو بنیاءپاکستان کا ازلی دشمن ہے، وہ پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے بھی پَر تول رہا تھا کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دئیے تو اس میں آج تک پاکستان پر حملہ آور ہونے کی جرا¿ت پیدا نہ ہو سکی مگر وہ اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے باز نہیں آیا گویا اسے جب کبھی موقع ملے گا وہ پاکستان پر ضرور حملہ کرے گا لہٰذا ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق اپنے گھوڑے یعنی اپنے ایٹم بم اور ایٹمی میزائیل دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار رکھنا ہوں گے، ہمارے جرنیلوں کو بھی یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان تو بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے ووٹ کی طاقت سے آئینی اور جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا، پاکستان کسی جرنیل نے فتح کر کے ملتِ پاکستان کو عطا نہیں کیا ہے چنانچہ اب بھارت نے پاکستان کو بنجر اور دشت و صحرا بنا دینے کے لئے پاکستان کے دریا¶ں پر ڈیم بنانے اور بند باندھنے کا سلسلہ قائم رکھا ہوا ہے۔ وہ پاکستان کے صوبہ خیبر کو بھی بے آب و گیاہ بنا دینا چاہتا ہے تاکہ افغانستان کی قبر میں بھی باچا خان جیسے پاکستان دشمنوں کی ہڈیوں تک کو اطلاع ہو جائے کہ بھارت اور بھارت کا ہندو ان کا دوست نہیں تھا، بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور جب تک ہم بھارت کے ساتھ ایٹمی جنگ لڑ کر اسے نابود نہیں کر دیتے وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا چنانچہ میں کہوں گا کہ ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے ڈرانے والوں سے بھی ہوشیار رہئیے کیونکہ وہ دشمن کے لئے راستہ ہموار کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں مگر پاکستان کے گھوڑے یقیناً بھارت کے کھوتوں (ایٹمی ہتھیاروں) سے بہتر اور م¶ثر ہوں مگر ہمارے حکمرانوں میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بھارت کے سامنے کھڑے ہو کر بات کر سکیں، صورت تو وہ ہے کہ پنجاب میں بھی گورنر اور اور وزیر اعلیٰ میں جھگڑا چل رہا ہے کہ سستی روٹی کہاں ہے، میں نے وزیر اعلیٰ سے کہا ہے کہ وہ گورنر کو ساتھ لے کر لاہور کا دورہ کریں اور ان کو دکھائیں کہ سستی روٹی کہاں کہاں مل رہی ہے بلکہ ان کے ساتھ سستی روٹی اور دال مل کر کھائیں۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن