رچرڈ ہالبروک نے پاکستان کے دسویں دورے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں آتے ہی کہا امریکہ کو پاک ایران گیس پائپ لائن پر کوئی اعتراض نہیں یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے۔ یوں موجودہ دورے کے پہلے روز اپنے آپ کو متنازعہ بنانے سے پہلو تہی کی۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر مثبت تاثر قائم کرنے کی کوشش کی۔ اگلے روز ان سے صبر نہ ہو سکا اندر کا کھوٹا پن باہر آ گیا صاف لفظوں میں بتا دیا۔ پاک ایران گیس لائن کا منصوبہ سلامتی کونسل کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے متاثر ہو سکتا ہے۔ پاکستانیوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ہالبروک نے مزید کہا امریکی کانگریس اس ضمن میں قانون سازی کر رہی ہے جو امکاناً 4 جولائی کو نافذ العمل ہو جائے گی اس کے منفی اثرات پاکستان کے ایران سے گیس کے حصول کے منصوبے پر پڑ سکتے ہیں۔ یوں صدر امریکہ کے نمائندہ برائے پاک وافغانستان نے ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات میں مداخلت کی ہے۔ پاکستان کو اس وقت جو گیس اور توانائی کی شدید ضرورت اور ملک اس حوالے سے ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہے ہمارے حکمرانوں کے سرپرست اور مہربان ملک نے ہماری معیشت کو مزید دبوچ کر رکھنے کی سعی کی ہے۔ صدر امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے اسے ملک کی جانب سے پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر ایک اور ضرب لگائی ہے۔ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل نہیں چھوڑا جا رہا۔ ہم جنرل مشرف کی آٹھ سالہ فوجی آمریت کی بدولت پہلے ہی افغانستان پر امریکہ کے فوجی قبضے کی جنگ میں اس کا اتحادی بن کر اپنی ایک لاکھ 40 ہزار فوج کو اس میں جھونک کر اپنی آزاد دفاعی اور خارجہ پالیسیوں پر قدغن لگوا چکے ہیں۔ اب امریکہ کو ہمیں اپنی معیشت مستحکم کرنے اور گیس و توانائی کی اشد ترین ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پرامن معاہدوں پر بھی اعتراض ہے۔ کیا ہمارا STATUS غلام ملک کا ہے۔
اگر نہیں تو حکومت پاکستان کو اس منصوبے پر کسی قسم کے اعتراضات کو بیک قلم مسترد کر دینا چاہیے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے ہم اس ضمن میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس اگر ایک قانون بناتی ہے تو وہ کسی معنی میں بین الاقوامی قانون کا درجہ نہیں رکھتا جہاں تک سلامتی کونسل کی تازہ قرارداد کا تعلق ہے تو عالمی ادارے کے اس انتہا درجہ امتیازی فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ پابندیوں کا اطلاق ایران کی پٹرولیم اور گیس کی مصنوعات پر بھی ہو گا اگر ایسا ہوتا تو عوامی جمہوریہ چین اس کے حق میں ووٹ نہ دیتا۔ چین ایران کے تیل کا بہت بڑا خریدار ہے۔ قرارداد کے مسودے کی تیاری میں اس نے اس امر کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کا اثر اس کی تیل کی درآمد پر نہیں پڑے گا۔ اور وہ ایران سے مسلسل تیل کی خریداری کرتا رہے گا ۔ سوال یہ ہے اگر قرارداد چین کی ایران کے ساتھ تیل اور متعلقہ مصنوعات کی تجارت پر پابندی نہیں لگاتی تو یہ پاکستان پر کیوں لاگو ہو گی جبکہ ہمارا ملک نہ اسلامتی کونسل کا رکن ہے نہ اس کے حق میں ووٹ دینے والوں میں شامل ہے۔
بھارت نے پاکستان آنے والے دریاو¿ں کے پانی کو کسی نہ کسی بہانے مسلسل روک کر ہماری قابل کاشت زمینوں کو بنجر اور ویرانی میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے وہ اس پر عمل پیرا بھی ہے۔ اب امریکہ نے بھی گیس پائپ لائن اپنے اعتراض کا کھلم کھلا اظہار کر کے اس کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ہے۔ گیس اور توانائی آج کے پاکستان کی سب سے بڑی اقتصادی ضرورت ہے۔ آبپاشی کے لئے نہری پانی کے ساتھ مل کر یہ ہماری لائف لائن بنتی ہے۔ اس کے بغیر ہمارے لئے جینا محال تر ہو جائے گا۔ امریکہ دفاعی خارجہ میدان اور معاشی تینوں حوالوں سے پاکستان کو اپنا محتاج محض بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت اور امریکہ STRATEGIC PARTNERSHIP جس کا بہت چرچا ہے اس کا اولین ہدف یہی ہے لیکن پاکستانی حکمران کیوں سوئے ہوئے ہیں اور ہمارے ارباب بست وکشاد کا ضمیر کیوں جاگ نہیں رہا۔ اس کا جواب کیا اس وقت ملے گا جب ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا پچھلے برس امریکہ کی قیادت میں منعقد ہونے والی ٹوکیو کانفرنس میں فرینڈز آف پاکستان نے پانچ بلین ڈالر کی جس امداد کا وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک نہیں ملی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہالبروک کے ساتھ ملاقات میں اس کا تذکرہ بھی ادھر سے محض وعدہ فردا پر ٹال دیا گیا۔ ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والوں نے طے کر رکھا ہے کہ امریکی قرض کی مے پیتے رہیں گے۔ اسی کے نشے میں سرشار رہیں گے۔نوبت اگر ان غلامانہ پالیسیوں کے نتیجے میں فاقہ زدگی پر آ جائے تو آیا کرے ہمیں اقتدار کے مزے لوٹنے سے کون روک سکتا ہے۔ میں پھر اس بات کو دہراتا ہوں اگر ہمارا STATUS غلام ملک کا نہیں تو پاک ایران گیس کے منصوبے پر امریکی رکاوٹوں کو حقارت کے ساتھ اٹھا پھینکنا چاہیے۔
اگر نہیں تو حکومت پاکستان کو اس منصوبے پر کسی قسم کے اعتراضات کو بیک قلم مسترد کر دینا چاہیے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے ہم اس ضمن میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس اگر ایک قانون بناتی ہے تو وہ کسی معنی میں بین الاقوامی قانون کا درجہ نہیں رکھتا جہاں تک سلامتی کونسل کی تازہ قرارداد کا تعلق ہے تو عالمی ادارے کے اس انتہا درجہ امتیازی فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ پابندیوں کا اطلاق ایران کی پٹرولیم اور گیس کی مصنوعات پر بھی ہو گا اگر ایسا ہوتا تو عوامی جمہوریہ چین اس کے حق میں ووٹ نہ دیتا۔ چین ایران کے تیل کا بہت بڑا خریدار ہے۔ قرارداد کے مسودے کی تیاری میں اس نے اس امر کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کا اثر اس کی تیل کی درآمد پر نہیں پڑے گا۔ اور وہ ایران سے مسلسل تیل کی خریداری کرتا رہے گا ۔ سوال یہ ہے اگر قرارداد چین کی ایران کے ساتھ تیل اور متعلقہ مصنوعات کی تجارت پر پابندی نہیں لگاتی تو یہ پاکستان پر کیوں لاگو ہو گی جبکہ ہمارا ملک نہ اسلامتی کونسل کا رکن ہے نہ اس کے حق میں ووٹ دینے والوں میں شامل ہے۔
بھارت نے پاکستان آنے والے دریاو¿ں کے پانی کو کسی نہ کسی بہانے مسلسل روک کر ہماری قابل کاشت زمینوں کو بنجر اور ویرانی میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے وہ اس پر عمل پیرا بھی ہے۔ اب امریکہ نے بھی گیس پائپ لائن اپنے اعتراض کا کھلم کھلا اظہار کر کے اس کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ہے۔ گیس اور توانائی آج کے پاکستان کی سب سے بڑی اقتصادی ضرورت ہے۔ آبپاشی کے لئے نہری پانی کے ساتھ مل کر یہ ہماری لائف لائن بنتی ہے۔ اس کے بغیر ہمارے لئے جینا محال تر ہو جائے گا۔ امریکہ دفاعی خارجہ میدان اور معاشی تینوں حوالوں سے پاکستان کو اپنا محتاج محض بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت اور امریکہ STRATEGIC PARTNERSHIP جس کا بہت چرچا ہے اس کا اولین ہدف یہی ہے لیکن پاکستانی حکمران کیوں سوئے ہوئے ہیں اور ہمارے ارباب بست وکشاد کا ضمیر کیوں جاگ نہیں رہا۔ اس کا جواب کیا اس وقت ملے گا جب ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا پچھلے برس امریکہ کی قیادت میں منعقد ہونے والی ٹوکیو کانفرنس میں فرینڈز آف پاکستان نے پانچ بلین ڈالر کی جس امداد کا وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک نہیں ملی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہالبروک کے ساتھ ملاقات میں اس کا تذکرہ بھی ادھر سے محض وعدہ فردا پر ٹال دیا گیا۔ ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والوں نے طے کر رکھا ہے کہ امریکی قرض کی مے پیتے رہیں گے۔ اسی کے نشے میں سرشار رہیں گے۔نوبت اگر ان غلامانہ پالیسیوں کے نتیجے میں فاقہ زدگی پر آ جائے تو آیا کرے ہمیں اقتدار کے مزے لوٹنے سے کون روک سکتا ہے۔ میں پھر اس بات کو دہراتا ہوں اگر ہمارا STATUS غلام ملک کا نہیں تو پاک ایران گیس کے منصوبے پر امریکی رکاوٹوں کو حقارت کے ساتھ اٹھا پھینکنا چاہیے۔