چيف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی ميں سپریم کورٹ کے تين رکنی بینچ نے اين آئی سی ايل اسکينڈل کيس کی سماعت کی۔ عدالت نے چوہدری شجاعت حسين اوررحمان ملک کو جسٹس ربانی کميشن کی رپورٹ پر وکيل کے ذريعے جواب داخل کرنے کی ہدايت کی۔ چيف جسٹس نے سيکرٹری تجارت سے استفسارکیا کہ اياز نيازی کے بطور چیئرمین این آئی سی ایل تقرر ميں کس کا کيا کردار تھا۔چيف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سالانہ چھ ارب روپے ٹرن اوور والے ادارے پر ايسا آدمی لگا ديا گيا جو بنيادی اہليت پر ہی پورا نہیں اترتا،ايسا تقرر کرنے والوں کے خلاف کيس تو نيب اور ايف آئی اے کو بھجوادينا چاہيئے تھا۔ ظفرقريشی اور معظم جاہ نے تین ارب روپے نکلوا کردیئے،من پسند افراد کے تقرر کی روايت ختم ہونی چاہيئے۔ سيکريٹری تجارت نے کہاکہ وہ بھی اياز نيازی کے تقرر کو سپورٹ نہيں کرتے، امين فہيم کی طرف سے ايس ايم ظفر نے پيش ہوکر کہاکہ ان کے موکل نے اياز نيازی سميت تین نام وزيراعظم کو بھيجنے کي منظوری دی،وزيراعظم چاہتے تو کسی اور کو مقرر کرديتے۔ چيف جسٹس نےریمارکس دیے کہ تحقيقات کے مطابق اياز نيازی چيئرمين بنے اور پيسے امین فہیم کے اکاؤنٹ ميں بھی گئے۔ عدالت نے رقم کی منتقلی پر سيکرٹری تجارت اور ڈائريکٹر ايف آئی اے سندھ کو کارروائی کا حکم ديتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کےلیے ملتوی کردی۔