اسلام آباد (محمد ریاض اختر‘ وقار عباسی) جمعة المبارک کو سینٹ کے اجلاس میں آرٹیکل 269 کی بازگشت سنی گئی۔ یہ آرٹیکل نئے ٹیکس عائد کرنے سے متعلق تھا۔ آئین کی اس شق کی ضرورت سپریم کورٹ کی طرف سے بجٹ منظوری سے قبل جی ایس ٹی کو شرح سترہ فیصد نافذ کرنے سے متعلق تھی۔ ممبران کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن اراکین کی تجاویز مان لی جاتی تو آج حکومت کو یوں کورٹ کے فیصلے سے سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ گزشتہ روز کے آخری مقرر مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا کی تقریب دوران اس وقت دلچسپی صورت حال نے جنم لیا جب وہ حکومت کی ٹیکس پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شادی بیاہ اور کمیونٹی ہال یونٹ پر نئے ٹیکس سے معاشرتی زندگی میں پریشانی بڑھ جائے گی اس دوران سینیٹر نجمہ حمید نے لقمہ دیا کہ ”بچے پیدا کرنے پر ٹیکس نہیں ہے“۔ ایک موقع پر ق لیگ کے سینیٹر نے کہا کہ میاں صاحب کاشغر سے گوادر تک ریلوے ٹریک بچھانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ بڑا کام بعد میں کر لیں پہلے 30 ارب خسارے میں چلنے والی ریلوے کی طرف توجہ دے لیں۔ سینیٹر نزہت صادق نے اپنی تقریر میں سالانہ میزانیہ کو بزنس پروموشن کے لئے بزنس فرینڈلی قرار دیا۔ محترمہ روبینہ نے جواباً کہا کہ یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ بجٹ بزنس کلاس کا ہے۔ نوابزادہ سیف اﷲ مگسی نے پنجاب کے ”مثالی امن“ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق گورنر سلمان تاثیر کے فرزند کا لاہور اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا ملتان سے اغواءکو کیا نام دیا جائے۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو جب مائیک دیا گیا تو اس وقت وفاقی وزیر خزانہ سینیٹ میں خطاب کر کے روانہ ہو گئے تھے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ ”اسحاق ڈار تو اپنی تقریر جھاڑ کر چلے گئے“۔ جب چیئرمین نے شاہی سید اور حاجی عدیل کے مابین کسی ایک صاحب کو بات کرنے کا کہا کہ حاجی عدیل مائیک آن نہ ہونے پر غصے میں آ گئے اور بطور احتجاج انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی تجاویز دیں مگر رپورٹ میں ان کی تجاویز کو With draw لکھ کر مجھے اور میری تجاویز کو نظرانداز کیا گیا ہے۔