تاریخ میں ہم جب بھی حکمرانوں کے کردار اور مقام کا تعین کرتے ہیں تو ہم اس کا حسب نسب نہیں دیکھتے اور نہ ہی یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کس نظام کی پیداوار ہے ٗ ہم صرف اسکی اپنی شخصیت ٗ اسکے اپنے اعمال ٗ اس کی اپنی قابلیت اسکے اپنے جھکائو ٗ اسکے اپنے نظریات اور اسکی اپنی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں حکمرانی جن نظاموں کے تحت ہوئی ہے اُنکی تعداد بہت زیادہ نہیں۔ آزاد ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قیام سے پہلے نظامِ جمہوریت سے لوگ نا آشنا تھے ۔ یہ تقریباًوہی دور ہے جب فراس میں انقلا ب آیا۔جب جین جیکس روسو نے ’’ نیو سوشل کنٹریکٹ‘‘ )نیاعمرانی معاہدہ ( کے نام سے ’’ تصور ِ جمہوریت ‘‘ کو پہلی بار ایک دستاویز کی شکل میں پیش کیا تو فرانس میں ہنوز بادشاہت قائم تھی۔ ’’ نیو سوشل کنٹریکٹ ‘‘ کی اشاعت 1761ء میں ہوئی۔ ایک ربع صدی بعد فرانسیسی انقلاب آیا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار عوام تخت گرانے اور تاج اچھالنے کیلئے بپھری ہوئی موجوں کی طرح سڑکوں پر نکلے۔لیکن یہ خونی انقلاب ’’ سلطانی ء جمہور ‘‘ کا وہ نظام قائم نہ کرسکا جس کا خواب روسو نے دکھایاتھا۔ اس انقلاب کی کوکھ سے پہلے نیپولین بونا پارٹ نے جنم لیا اور اسکے بعد کچھ عرصے کیلئے پھر شخصی حکمرانی واپس آگئی۔
جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے اس کی نشوو نما یورپ میں انیسویں صدی کے دوران ہوئی لیکن یورپ کی تاریخ چونکہ بادشاہتوں کی تاریخ تھی اس لئے جمہوریت کا امریکی ماڈل یہاںشروع میں مکمل طور پر مستردہوا۔ یورپی ممالک اپنی سربراہی بادشاہوں کے پاس رکھنا چاہتے تھے لیکن اس انداز میں کہ اختیارات بادشاہوں کے ہاتھوں سے نکل کر پارلیمنٹ کے پاس آجائیں جو سربراہِ حکومت منتخب کرے۔ سربراہ حکومت کو وزیراعظم کاصدیوں پر انا عہدہ دے دیا گیا ۔ برسبیل تذکرہ میں یہاں ابن علقمی کا ذکر کروں گا جو بغداد میں عباسی بادشاہت کا آخری وزیراعظم تھا۔ عباسی بادشاہوں کے دوسرے وزرائے اعظم میں یحییٰ برمکی اور جعفر برمکی خصوصی شہرت کے حامل ہیں جن کا تعلق ہارون الرشید کے دربار سے تھا۔جو بات کہنے کیلئے میں نے یہ موضوع چھیڑا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں وزیراعظم دربار کے امراء کے جوڑ توڑاور ملکی بھگت اور بادشاہ سلامت کی نظر ِعنایت کی بدولت حکمرانی پر قابض ہوا کرتے تھے ٗ اسی طرح دورِ جدید کے وزیراعظم بھی برا ہ راست عوام کے نمائندے نہیں ہوا کرتے اور ان کا انتخاب بھی حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے خواص کے جوڑ توڑسے ہوا کرتاہے۔یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ یورپ میں بادشاہتوں کے ہاتھو ں سے اقتدار جس انقلاب کے نتیجے میں نکلا وہ بھی فرانس میں آیا تھا اور جس انقلابی اقدام نے عوام کو پہلی بار اپنا سربراہِ حکومت خود براہ راست منتخب کرنے کا حق اور موقع دیا وہ بھی فرانس میں ہی کیا گیا۔ میرا اشارہ یہاں جنرل چارلس ڈی گال کے نافذ کردہ آئین کی طرف ہے جس میںفرانس کا چیف ایگزیکٹو ٗبراہ راست منتخب کئے جانے والے صدر کو بنا دیا گیا۔ عہدہ و زیراعظم کا بھی قائم رکھا گیا لیکن اس کی حیثیت ثانوی کردی گئی ۔ میں یہاں جنرل چارلس ڈیگال کی ایک تقریر کا ذکر کروں گا جو انہوں نے فرانس میں پارلیمانی جمہوریت کے خاتمے اور اپنے عبوری وزیراعظم نامزد کئے جانے کے موقع پر کی تھی۔’’ سیاست میں ارتقاء کا علم رک جائے تو قومی ترقی کا پہیہ بھی رک جایا کرتا ہے۔ میں جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا لیکن عوام کو یہ حق بہرحال ملناچاہئے کہ وہ ملک اور حکومت کی سربراہی کے لئے موزوں ترین شخص کا انتخاب خود اپنی بصیرت اور اپنا ووٹ استعمال کرکے کریں۔ حکومت بنانے کاحق صرف عوام کے پاس ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کا کام حکومت بنانا نہیں قانون بنانا ہے۔‘‘
بات ساری حکومت بنانے کے حق کی ہے۔ ملوکیت کی مختلف شکلوں میں یہ حق ہمیشہ ایسے خاندانوں کے ہاتھوں میں رہاجو خود کو ہمیشہ برتر سمجھتے تھے اور جن کا ’’ عقیدہ ‘‘ تھا کہ خدا نے انہیں ہی حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے۔
دورِ جدید میں آزاد ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا قیام ’’ حقِ حاکمیت ‘‘ کے اس روایتی تصور سے پہلی بغاوت تھی۔امریکہ میں جو نظامِ جمہوریت قائم ہوا اس کی دو بڑی خصوصیات تھیں۔ ایک تو یہ کہ سربراہِ حکومت یعنی چیف ایگزیکٹو یعنی صدر کا انتخاب چھان بین کے ایک لمبے مرحلے کے بعد ہمیشہ عوام براہ راست اپنے ووٹوں سے کرینگے۔دوسری خصویت یہ کہ نہ تو سیاسی جماعتوں میں اور نہ ہی صدر کے عہدے کے انتخاب میں موروثی عمل کو کوئی دخل ہوگا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ امریکی جمہوریت میں امراء اور خواص کی مداخلت کو بڑی حد تک پارٹی کے معاملات تک محدود کردیا گیا۔ یہ درست ہے کہ پارٹی بیورو کریسی یہ فیصلہ کرنے میں کوئی نہ کوئی کردار ضرور ادا کرتی ہے کہ صدارت کا الیکشن لڑنے کا ٹکٹ کس امیدوار کو ملے گا مگر فیصلہ کن کردار بہرحال رائے عامہ ادا کرتی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو ابراہم لنکن ٗ بل کلنٹن اور براک اوبامہ جیسے پس منظر کے اصحاب وہائٹ ہائوس میں کبھی نہ پہنچتے۔ میں نے امریکی جمہوریت کے خدوخال پر یہاں زور اس لئے دیا ہے کہ مجھے امریکیوں کے نظام میں اُس نظام کی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور نظر آتی ہے جو ساتویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی میں قائم ہوا اور جسے اگر بنی نوع انسان کی تاریخ کی پہلی حقیقی جمہوریت قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ (جاری)
ہمیں انقلاب چاہیے‘ مگر کون سا؟
Jun 22, 2014