موت اٹل حقیقت ہے، اس سے فرار ممکن نہیں۔ ہر انسان کیلئے دنیا عارضی ٹھکانہ ہے۔ زندگی درویشانہ ہو یا شاہانہ، خواہ سو، سوا سو سال کی ہو، گزر جاتی ہے۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو بیسیوں سال بھی ایک لمحہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی مرضی سے یہ لمحہ گزارنے کا حق ہے۔ اپنی دانست میں ہر کوئی اسے اطمینان، آسانی اور آسائش سے بیتانے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ اس ایک لمحہ کو پرتعیش بنانے کیلئے انسانیت کی حدیں عبور کر جاتے ہیں۔شاہ ہوں تو شاہی کے دوام کیلئے انسانوں کی لاشیں گرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس میں عموماً شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اپنی حماقتوں سے شاہ کا گھیرا تنگ کروا دیتے ہیں۔ایسا سدا سے ہوتا آرہا ہے۔اسکی ایک معمولی سی جھلک سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں نظر آئی، جہاں رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اپریشن میں دو خواتین سمیت8 افرادموقع پر جاں بحق اور 80 زخمی ہو گئے۔اب مرنے والوں کی تعداد 13ہوچکی ہے۔ اس بربریت کی وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت ہر سیاسی پارٹی کی قیادت سمیت وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ وزیر اعلیٰ اس سانحہ پر بڑے رنجیدہ اور سنجیدہ نظر آئے۔ انہوں نے تحقیقات کیلئے فوری طور پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدیا۔ کچھ پولیس افسروں کو او ایس ڈی بنا دیا۔ طاہرالقادری جوڈیشل کمیشن کو مسترد کرچکے ہیں۔ اس پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے منہاج القرآن کی انتظامیہ سے بڑی لجاجت سے انسانیت کے نام پر جوڈیشل کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی ہے۔دوسری طرف طاہرالقادری کی عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ایم این اے حمزہ شہباز، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر مملکت عابد شیر علی، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ، سابق سی سی پی او لاہور چودھری شفیق احمد، سابق قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار، سابق ایس پی ماڈل ٹاﺅن طارق عزیز، ایس ایچ او فیصل ٹاﺅن رضوان قادر ہاشمی، ایس ایچ او ماڈل ٹاﺅن ریحان اورگلو بٹ سمیت 21 افرادپر مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ہے۔ فیصل ٹاﺅن پولیس نے ان افراد کیخلاف مقدمہ کے اندراج کیلئے پیش کی گئی درخواست موصول کرلی ہے مگر تاحال اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق اعلیٰ پولیس حکام کے احکامات کے بعد کارروائی کی جائیگی۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ شیخ حرم 12 مئی 2007ءکو مشرف کے ساتھ جشن منا رہے تھے۔ مشرف کے بہت سے شریک جرم وعدہ معاف گواہ بن گئے یہ کبھی مسلم لیگ ن کی قیادت کے ناک کا بال تھے جو اب ہیں، وقت آنے پر وہ سلطانی گواہ بننے میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہیں کریں گے۔
طاہرالقادری نے 23 جون کو کینیڈا سے پاکستان آنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ حکمران انکی آمد روکنے کیلئے سرگرم رہے۔ مسلم لیگ ن کے ہاکس طاہرالقادری کیخلاف نفرت انگیز بیانات کی سنگ باری کرتے رہے اورانکے ایما پر بالآخر سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ کس نے کیا اس کا تعین کرنے کیلئے زیادہ ذہن لڑانے کی ضرورت نہیں تاہم امید رکھنی چاہئے کہ جوڈیشل کمیشن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے، جو پاکستان کی تاریخ میں پہلے کم کم ہی ہوا ہے۔ جن معدودے چند کمیشنوں کے فیصلے سامنے آئے‘ ان میں ایک طاہرالقادری پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملے کا تھا۔ یہ کمیشن مسلم لیگ ن کے سابق دور میں بنا۔ طاہرالقادری نے اس حملے میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ پہلے حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن بنا اس کو بوجوہ کام سے روک کر ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا گیا جس نے مدعی ہی کو مجرم بنا دیا، فیصلہ کیا تھا‘طاہرالقادری کی کردار کشی تھی۔ طاہرالقادری اسی لئے مسلم لیگ ن کے حکمرانوں سے انصاف دلانے کی توقع نہیں رکھتے۔
نوائے وقت کے رپورٹر احسان شوکت نے اپنی رپورٹ اور بعدازاں آرٹیکل میں لکھا ہے کہ رکاوٹیں ہٹانے کیلئے آنیوالی پولیس کے ساتھ ایلیٹ کمانڈو اور سنائپر بھی تھے۔ اسی روز اپنے استقبال سے فارغ ہو کر نئے آئی جی صاحب نے رعونت کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ ادھر آٹھ لاشیں پڑی تھیں ادھر انکی پیشانی پر ندامت و پشیمانی کی پرچھائیںتک نہیں تھی ۔ ایک سوال پر کہا کہ آپ آٹھ لاشوں کی بات کرتے ہیں 100قتل ہو جائیں ان کا بھی ایک پراسیس ہوتا ہے۔ صحافیوں کو پراسیس سمجھانے والے آئی جی گزشتہ روز جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ جج صاحب نے فوری پیش ہونے کا حکم دیاتو ساری پھوک نکل گئی۔ بڑی سادگی سے جواز پیش کیا کہ میں نے سمجھا کہ اب شاید مجھے پیش نہیں ہونا۔ احسان شوکت کہتے ہیں کہ جب پولیس منہاج القرآن سیکرٹریٹ کو فتح کرکے لوٹی تو افسر اور اہلکار معرکہ مارنے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔
پولیس نے اندھا دھند اسلحہ استعمال کیا‘ وہیں گلو بٹ کی خدمات سے بھی استفادہ کیا۔ گلو بٹ سے مسلم لیگ ن لاتعلقی ظاہر کر رہی ہے۔ گلو بٹ جیسے کن ٹٹوں پر انحصار کرنیوالے پولیس حکام کو چُلّو بھر پانی پیش کیا جانا چاہئے۔ موقع پر موجود رپورٹر کہتے ہیں کہ پولیس سے سیدھی فائرنگ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سیدھی اور تاک کر فائرنگ سنائپرز نے کی جو گھروں کی چھتوں پر چڑھا دئیے گئے تھے۔ انکے پاس وہی اسلحہ ہو سکتا ہے جو رانا ثناءاللہ کے بقول منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے ملا ہے۔ رانا صاحب سے پوچھا گیا کہ وہاں سے ملنے والا اسلحہ صحافیوں کو موقع پر کیوں نہیں دکھایا گیا تو اس سوال پر بوکھلائے ہوئے جواب دیا کہ یہ اسلحہ جوڈیشل کمیشن میں پیش کیا جائیگا۔ اب اس میٹنگ کی ابتدائی کہانی کوئی راز نہیں رہی جس کے مطابق کمشنر صاحب نے ماڈل ٹاﺅن اپریشن سے گریز کا مشورہ دیا۔ رانا ثناءاللہ نے اسکی مخالفت کی اور کہا کہ ان کو سبق سکھانا ہے یقیناً اوپر سے بھی سبق سکھانے کی ہدایت کی گئی ہوگی۔ خادم اعلیٰ ٹی وی پر بیٹھے سبق سکھانے کے مظاہرے دیکھتے رہے ہوں گے۔ ڈرانا اور سبق سکھانا مقصود تھا‘ لاشیں گرانا ہرگز نہیں۔ لاشیں گریں تو اوسان خطا ہو گئے اور نوٹس لینے کا موقع نہیں رہا تھا۔ سنائپر اور دیگر سیدھی فائرنگ کرنے والوں کو ہدایات کون دے رہا تھا کمیشن اس سے پردہ ہٹا سکتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپریشن کی طاہرالقادری کی آمد سے ہفتہ قبل ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ جن لوگوں نے اسکی ہدایت دی اور منصوبہ بندی کی ذمہ داری بھی ان پر آئیگی۔ (جاری)