عوام مسائل کے خارزارمیں

میڈیکل انٹری ٹیسٹ کا موسم آ چکاہے ۔ طلبا ء و طالبات کے قدم اس کوچہ وبازار کی جانب اٹھ رہے ہیں۔ جہاں علم کے سودا گروں نے اپنی اپنی دکانوں کو رنگ و روغن سے سجا رکھا ہے۔ بینروں اوراشتہاروں کی بہار آ کے رکی ہے۔ عنقریب لوٹ مار کا بازار گرم ہونے جا رہا ہے۔ ابھی بس اس پار میں پریکٹیکل کا وقفہ درمیان میں کھڑا ہے۔ جیسے ہی ایف ایس سی کے امتحانات مکمل ہوتے ہیں انٹری ٹیسٹ کا میلہ اپنے عروج کو چھونے لگے گا۔ دور دراز دیہات سے آئے ہوئے بوڑھے بزرگ اپنے بچوں کے ہاتھ تھامے اپنے آپ کو ان قصابوں کے حوالے کر رہے ہیں۔یہ قصاب پہلی ہی فرصت میںان کی جیبیں آنکھ بچائے بغیر خالی کر رہے ہیں ۔ بدلے میں ان کے بچوں کو ٹیسٹ کی تیاری کے عمل سے گزاریں گے۔ آگے خدا کی مرضی ۔ چاہے تو ہزار سے اوپر نمبر حاصل کرنے والا فیل ہو جائے اور چاہے تو ایک نارمل عام سا طالب علم اس انٹری ٹیسٹ کی فصیل کو بآسانی عبور کر لے۔ بیچ میں سسٹم اپنا کام دکھا رہا ہے۔ یہ سسٹم کیا ہے۔ ایک طالب علم ایف ایس سی میں ایک بار بورڈ کے امتحان کی کٹھالی میں ڈالا جاتا ہے اور اگر وہ اس میں سے سر خرو ہو کر بھلے پوزیشن بھی مار لیتا ہے مگر دوسری بار اس کو انٹری ٹیسٹ کی پل صراط کو بھی عبور کرنا ہوتا ہے۔اب یہاں علم پرکھنے کی کسوٹی یعنی انٹری ٹیسٹ کے سچ کی پرکھ کا یہ عالم ہے کہ یہ ٹیسٹ چاہے تو اس پوزیشن ہولڈر کے پائوں تلے سے زمین کھسکا دے اور ماضی کے تلخ مشاہدات یہی ہیں۔ کہ اس انٹری ٹیسٹ نے ہزار کراس طلباء و طالبات کے ہاتھوں سے طوطے اڑا دیے۔ جن کا دوبارہ کہیں نشاں تک نہ ملا۔ ان ہاتھ سے اڑتے طوطوں کا ۔ اس دوہرے نظام کے ہاتھوںنے کتنے ہی ذہین ، فطین لائق طالب علموں کے مستقبل تاریک کر کے رکھ ڈالے۔ مگر اکیڈمی مالکان کو معاشرے کا کاروباری طبقہ اور ساہوکار بنا دیا۔ لاکھ کوشش کے باوجود عوام اس دوہرے نظام کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہر سال اس نظام کے متاثرہ افراد تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ہر سال نئے شکار اکیڈمی مالکان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور ان کی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ میں ایسی کتنی ہی اکیڈمیوںکو اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات کے حوالے سے جانتا ہوں۔ وہ اپنی فیسیں بھاری رشوت کے طور پر وصول کرتے ہیں ۔مگر ان کی فیکلٹی میں اکثرایسے سکالر موجود ہوتے ہیں جن کا زندگی بھر میڈیکل انٹری ٹیسٹ سے دور دور تک واسطہ نہ تعلق ہے۔ ان کی اہلیت انٹری ٹیسٹ کو چھونے کی بھی نہیں ہوتی یا اکثر یہ میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے فیل شدگان کی فہرست میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں اور اکیڈمی سکالر کے طور پر شہرت پاتے ہیں۔وہ جب اپنے علم و ہنر کو آگے شفٹ کرتے ہیں تو لائق سے لائق طلبہ بھی کمرئہ امتحان میں بدک جاتے ہیں۔ یہاں پر اکیڈمیوں کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں مختلف ٹی وی چینلز کی ہے۔جس نے جس قدر زیادہ مال لگا دیا اشتہاری مہم چلا دی ۔ اس نے اسی قدر رقم اکٹھی کی۔ پہلے پہل یعنی شروعات میں ان اکیڈمیوں کا بسیرا رہائشی مکانوں میں تھا۔ مگر اب ان کی اڑان بلندو بالا پلازوں تک جا پہنچی ہے۔ یہاں یہ خواہش نہیں کہ علمی سر گرمیوں پر قدغن لگا دی جائے۔ مطالبہ یہ ہے کہ عوام کو اتنے مہنگے داموں تعلیم فروخت نہ کی جائے۔ تعلیم تک کے راستوں پر بھی میٹرو بس چلائی جائے۔ تاکہ عوام سستے داموں تعلیم کی منزلوں کو طے کر سکیں۔ کیا تعلیم پر بھی ٹیکس لاگو ہے جو اتنے مہنگے داموں بیچ بازار بک رہی ہے۔ اس ذریعے سے حاصل شدہ بھاری رقمیں کیا منی لانڈرنگ کے زمرے میں شمار تو نہیں ہوتیں۔ ایک مخصوص حد تک تو استثنا حاصل ہے۔ مگر اتنی بڑی رقم جو فیسوں کی مد میں اکیڈمی مالکان کی جیب میں جاتی ہے ،پر تو سرکار اور ریاست کا ٹیکس لاگو ہوجاتا ہے۔ اس لیے پتہ لگانا چاہیے کہ’’ جیو‘‘ جیسی ریٹنگ والی اکیڈمیوں کی ما ہانہ آمدنی کیا ہے۔ کیا وہ اس پر کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی ادا کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو ان کو بھی ایگزیکٹ کو در پیش جیسے خار زار پر گھسیٹا جانا چاہیے۔بلکہ اس سے بھی اوپری ڈگری پر مجرم ٹھہرایا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ رقم کے بدلے میں کچھ بھی نہیں دیتے ۔ ایگزیکٹ کم از کم ڈگریاں توفراہم کرتی رہی ہے بھلے جعلی سہی۔ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔ سنا ہے ایگزیکٹ کی جاری کردا ڈگریوں پر گورے اہم عہدوں پر راج کر رہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق بیشک آپ ڈیکلن والش سے کر لیں۔کاش یہاںپاک سر زمین پہ کوئی ڈیکلن والش پیدا ہو جائے جو اپنی تحقیق سے ان علم فروشوں کو پکڑے اور سر کار با وقار کے سامنے کھڑا کرے اور بتائے کہ محض چند دنوں کے تردد سے کس طرح کروڑوں میں رقم اکھٹی کی جاتی ہے۔ جس پر کوئی صدقہ زکوٰۃ تو دور کی بات ٹیکس تک ادا نہیں کیا جاتا اور اس رقم سے مالکان نے ملٹی سٹوری پلازے کھڑے کر دیے ہیں۔ چلیے اس مسئلہ کو ابھی بالائے طاق رکھتے ہیں۔ ایک اور ظلم دیکھیے جو اسی تعلیمی میدان میں برپا ہے۔ تین ماہ کی طویل تعطیل کے باوجود تمام سکول والدین سے فیسیں بٹور رہے ہیں حالانکہ اس بار سرکار کی جانب سے میڈیا پر یہ خبر چلتی رہی کہ صرف ایک ماہ کی فیس وصول کی جائے گی۔ مگر اس کے باوجود سکول مالکان نے تین ماہ کی فیس وصول کی۔ کاش سرکار اخبارات میں نوٹیفکیشن شائع کروا دے اور گروپس آف سکول کے نام فہرست کی صورت میں پبلش ہو جانے چاہئیں تاکہ عوام میں بیداری پیدا ہو اور وہ جان سکیں کہ انہوں نے ان ظالم علم فروشوں کے شکنجے سے کیسے آزادی حاصل کرنی ہے۔ میرا نواسہ رائے رائد نعیم اپنے بستے میں تین ماہ یعنی جولائی ،اگست اور ستمبر کی فیس کا نوٹس لایا ہے۔ جب کہ جون کی فیس پہلے ہی ادا ہو چکی ہے۔ گورنمنٹ اس دوران اگر چھٹیوں کی فیس سے استثناء کا نوٹیفیکیشن سامنے لاتی ہے تو رائد کے والدین کو پچاس ہزار کی بھاری رقم کی ادایئگی سے بچایا جا سکتا ہے۔ ایسے کتنے ہی انگنت رائد بھاری فیس کے یہ نوٹس لے کے تین ماہ کی چھٹیوں کے ساتھ گھروں کو لوٹے ہیں۔ اب نادرا کی کارستانیاں ملاحظہ کریں۔اسلحہ لائسنس کی تجدید پر متعلقہ ڈیپارٹمنٹ نے نشان انگوٹھا کی تصدیق نادرا کی جانب سے مانگی ہے۔ شہری نادرا آفس اپروچ کر رہے ہیں کہ وہ نشان انگوٹھا کی تصدیق کرے۔ آگے سے نادراکا جواب ملاحظہ کریں۔ ہمارا سسٹم نشان انگوٹھا شو نہیں کر رہا ہے۔ لہٰذا نیا کارڈ بنوایا جائے۔ چنانچہ اسلحہ ہولڈر شہری نیا کارڈ بنوانے پر مجبور ہے۔ لائسنس تجدید کی آخری تاریخ سر پر ہے۔ اس لیے ارجنٹ کارڈ کی نوبت آ پہنچی ہے۔ جسکی فیس پندرہ سو روپیہ ہے۔ گویا نادرا اس مد میں ہر بندے کو پندرا سو روپے کا ٹیکہ لگا رہا ہے ۔ یوں مسائل باہم گتھم گتھا ہیں۔ عوام اس دھینگا مشتی میں تڑپ رہے ہیں اور جمہوریت اپنے سات سال بغیر وقفہ کے مکمل کر چکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...