امریکی محکمہ دفاع کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2014ءمیں پاکستان نے قومی ایکشن پلان شروع کیا جس کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ ایک طویل المیعاد پلان ہے جسے بڑی رکاوٹوں پر قابو پانا پڑے گا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری علاقائی سلامتی کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے سرحد کے آر پار سکیورٹی کے لئے باہمی رابطوں کی خواہش کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ دریں اثناءآرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کے خاتمے کے لئے فورسز کو افغانستان سے مطلوبہ تعاون نہیں مل رہا۔
آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے۔ پانچ ہزار سے زائد پاک فوج کے سپوتوں سمیت 60 ہزار پاکستانی اس دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے، انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں 100 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان سے معیشت زوال پذیر ہوئی جو سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔ پاکستان میں دہشتگردی کی بنیادی وجہ پاکستان کا نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا ہے۔ امریکہ نے اس جنگ کے مقاصد حاصل کئے یا نہیں کئے۔ اگر مقاصد حاصل کئے تو کس حد تک کئے ۔ اس بحث سے قطع نظر زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا۔ جبکہ 9 ہزار فوجیوں کو بدستور افغانستان میں تعینات رکھا گیا۔ امریکہ نے اپنی جنگ تو ضرور سمیٹ لی مگر پاکستان پوری طرح اس جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔ سیاسی قیادت نے مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے شعلوں پر قابو پانے کی کوشش کی مگر دہشتگرد امن کی راہ پر چلنے کے لئے آمادہ نہ ہوئے فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا جس میں توقعات سے بڑھ کر پاک فوج کو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ بڑی تعداد میں دہشتگرد مارے گئے۔ بڑی مقدار میں اسلحہ پکڑا گیا۔ باردو ساز فیکٹریاں تباہ کی گئیں۔دہشتگردوں کا کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم اڑا کے رکھ دیا گیا۔ یہ لوگ اپنی پناہ گاہیں چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ کچھ افغانستان فرار ہوئے اور کچھ پاکستان ہی میں روپوش ہو گئے جو موقع بموقع دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ر ہے ہیں۔ فوج ان کے تعاقب میں ہے مگر دہشتگردی اور دہشتگردوں کا خاتمہ ان کے سہولت کاروں کے خلاف کڑی کارروائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جنرل راحیل شریف نے خیبر ایجنسی میں دہشتگردوں سے نبرد آزما فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کو دوبارہ منظم نہیں ہونے دینگے۔ ان کے سرپرستوں اور مالی مدد کرنیوالوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ جہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ کتنے عرصے میں ہو سکتا ہے؟ جس طرح امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی تو پوری دنیا اس کے ساتھ تھی۔ پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے پوری عالمی برادری نہیں محض امریکہ اور چند پڑوسی ممالک نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کریں تو پاکستان بہت کم مدت میں دہشتگردوں کے وجود سے پاک ہو سکتا ہے۔ پینٹا گان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”قومی ایکشن پلان ایک طویل المیعاد پلان ہے جسے بڑی رکاوٹوں پر قابو پانا پڑے گا“۔ پینٹا گان کی نظر میں قومی ایکشن پلان طویل المدت اس لئے بن گیا کہ جن ممالک سے اس پلان میں تعاون کی توقع تھی وہ نہ صرف تعاون نہیں کر رہے بلکہ اس کے برعکس پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ بھارت سے تو پاکستان کے حوالے سے سرے سے خیر کی توقع ہی نہیں۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں تو اس عفریت نے پاکستان کو ڈسنا ہی ہے۔ اشرف غنی کی قیادت میں افغان انتظامیہ سے مثبت کردار کی امید پیدا ہوئی تھی جونقش برآب ثابت ہوئی ہے۔
صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مثبت کردار ادا کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزاءبیانات آتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل اور ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے کابل کے دورے بھی کامیاب رہے۔ اشرف غنی اور افغان آرمی چیف جنرل کریمی کے اسلام آباد کے دورے پاکستان کے نقطہ نظر سے کامیاب رہے۔ پاکستان سے مفرور دہشتگردوں کے خلاف افغانستان میں آپریشن بھی ہوئے مگر پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون سے افغانستان سے اچانک ہاتھ کھینچ لیا۔ مولوی فضل اللہ اور اس کے دہشتگرد ساتھی حملوں میں کام آئے نہ پاکستان کے حوالے کئے گئے۔ اشرف غنی اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کا عزم ظاہر کر رہے تھے آج کہتے ہیں پاکستان 14 سال سے افغانستان کے خلاف جارحیت کر رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف کو بھی کہنا پڑا کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کو تعاون نہیں مل رہا۔ اشرف غنی انتظامیہ کرزئی کی طرح امریکہ کی خواہش اور مرضی کے برعکس اندرونی اور بیرونی کوئی پالیسی تشکیل نہیں دے سکتی۔
پر امن پاکستان بھارت کی برداشت سے باہر ہے۔ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت بارہا کہہ چکی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کرانے میں ملوث ہے۔ فوجی ترجمان نے ایک موقع پر بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ ضرب عضب آپریشن کو ناکام بنانے کی سازشوں سے باز رہے۔ اب اشرف غنی پاکستان پر 14 سال سے جارحیت کے الزامات لگا رہے ہیں تویقیناً ان کے اندر بھارت بول رہا ہے اور بھارت کا امریکہ بلاشبہ پشت پناہ ہے۔ اس کی گواہ امریکی جریدے فوربز کی تازہ ترین رپورٹ بھی ہے جس میں کہا گیا ہے امریکہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ ملٹری اور جوہری تعاون بڑھا رہا ہے۔اس طرح کا تعاون بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرسکتا ہے۔ پینٹاگون نے ایک تعاون گروپ قائم کیا ہے جو بھارت کے اگلے طیارہ بردار جہاز کی تعمیر میں مدد کرے گا، جس پر اس ماہ عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔جریدہ مزید لکھتا ہے کہ پاکستان بھارت کشیدگی کے تناظر کو دیکھا جائے، تو دونوں ممالک اپنے قیام کے بعد سے 4جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔
امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بھارت پر مہربان ہے۔ اس نے پاکستان کی ان قربانیوں کو بھی فراموش کر دیا جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جانی و مالی صورت میں دیں۔ محض چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ ملٹری اور جوہری تعاون بڑھا رہا ہے جبکہ بھارت کا جنگی جنون صرف اور صرف پاکستان کے لئے ہے۔ امریکہ زبانی طور پر پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے مگر عمل اس کے برعکس ہے۔ امریکہ اپنا دہرا معیار ترک کر ے تو مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے جس سے پاکستان بھارت کشیدگی کم ہو گی خطہ امن کا گہوارہ بنے گا جس کے عالمی امن پر بھی یقیناً مثبت اثرات ہونگے۔ یوںپاکستان سے دہشتگردوں اور دہشتگردی کا مختصر مدت میں خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔